موسمیاتی تبدیلیاں: مثبت سوچ


ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا ”گلوبل ویلج“ میں تبدیل ہو گئی ہے اُور دنیا کی یہ نئی شکل و صورت اِس لحاظ سے منفرد ہے کہ کم و بیش سبھی ممالک میں رہنے والے صرف انسان ہی نہیں بلکہ تمام جانداروں کیلئے اپنی بقاء سب سے پہلی ضرورت بن گئی ہے اور یہ ضرورت کوئی راز نہیں بلکہ عالمی مسائل سے پوری دنیا پل پل آگاہ ہے۔ توجہ طلب ہے کہ قدرتی آفات کی شکل میں پیدا ہونیوالے مسائل جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے حل کئے جا سکتے ہیں لیکن اِس کیلئے ”ٹیکنالوجی برائے امن و تعاون“ کی بنیاد رکھنا ہوگی‘ نت نئے سائنسی تجربات سے زرعی شعبے کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا گیا‘ تو دوسری طرف اِن تجربات کی بنیاد پر انسانی ذہنوں میں خلفشار بھی پیدا ہوا ہے جو ٹیکنالوجی کا رخ تخریبی سرگرمیوں کی جانب مبذول کئے ہوئے ہے۔ ایسی منفی سرگرمیوں میں ممالک کی ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کا خناس بھی سرگرم عمل ہو جاتا ہے جو انسانی سرشت میں شامل ہے چنانچہ انسانی برادری آج انہی بکھیڑوں میں اُلجھ کر ایک دوسرے کی ہلاکت کا اہتمام کر رہی ہے اور ہر ملک خود کو پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ سمجھ رہا ہے جو ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کر چکے ہیں‘ وہ اس ٹیکنالوجی میں مزید تجربات کررہے ہیں حالانکہ ممالک کو ایک دوسرے سے خطرات لاحق ہونے اور ہتھیاروں کی فکر میں رہنے کی بجائے موسمیاتی تبدیلیوں کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے جوہری ٹیکنالوجی جس قدر بھی جدید ہو جائے لیکن یہ قابل بھروسہ اور محفوظ نہیں۔ ایسے کئی بڑے جوہری حادثات اِس حقیقت کے گواہ ہیں کہ اس دوڑ نے جہاں مختلف خطوں میں طاقت کے توازن کو بگاڑا ہے وہیں جوہری پلانٹس سے نکلنے والی مختلف گیسوں اور زہریلے مادوں کے اخراج سے ماحولیاتی آلودگی بھی بڑھنے لگی ہے اور یہ عوارض کی شکل میں انسانی جانوں کے درپے ہے آج یہی ماحولیاتی آلودگی موسمیاتی تبدیلیوں پر منتج ہو رہی ہے جس سے بعض خطوں میں درجہ حرارت شدت کیساتھ بڑھ رہا ہے اور بعض خطے خشک سالی کا شکار ہو کر قحط کے مناظر سامنے لا رہے ہیں‘یواین سیکرٹری جنرل انتونیو گرئترس نے کہا کہ ”دنیا کو اِس وقت خوراک کے بحران کا سامنا ہے‘ ہمیں یوکرائن جنگ کے خاتمے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے    عالمی سطح پر درپیش مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کئے جا سکتے ہیں‘ ماحولیاتی تبدیلی کے سب سے کم ذمہ دار ممالک اسکے بدترین نتائج بھگت رہے ہیں ہمیں مستقبل کیلئے سمندروں کی حفاظت کرنی چاہئے‘ موسمیاتی تبدیلیوں سے کئی ممالک کو خطرہ ہے۔ بلاشک و شبہ ”نظام ِکائنات“ ربِ کائنات کی حکمت و تدبر سے چل رہا ہے تاہم اس دھرتی پر جو مسائل انسانوں کے اپنے پیدا کردہ ہیں ان کے حل کیلئے بھی انسانوں نے ہی کوشش کرنی ہے۔ دھرتی پر قدرت کے جو بھی وسائل موجود ہیں‘ انہیں حسن و تدبر کے ساتھ بروئے کار لاکر خلقِ خدا کیلئے آسودگیاں پیدا کی جا سکتی ہیں     یہ بات بھی شک و شبے سے بالاتر ہے کہ دھرتی پر انسانی آبادی پھیل رہی ہے‘اِس وسعت پذیری کیساتھ آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے وسائل بتدریج کم ہو رہے ہیں اور یہ صورتحال کرہئ ارض پر بھوک‘ بیماری‘ تنگ دستی‘ غربت کے مسائل میں اضافہ کر رہی ہے ان مسائل سے پیدا ہونیوالی افراتفری بھی انسانی سوچ پر مضر اثرات کا باعث ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے ہی انسانی صحت کو نت نئے عوارض لاحق ہو رہے ہیں جن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کرہئ ارض پر انسانی زندگی کا دورانیہ کم ہو رہا ہے چونکہ یہ سارے تعمیری اور تخریبی معاملات نظام ِقدرت سے ہٹ کر انسانی ذہن رسا کے پیدا کردہ ہیں اس لئے انسانوں نے اپنے پیدا کردہ مسائل کا خود حل ڈھونڈنا ہے اور المیہ یہ ہے کہ انسانوں کی یہ تعمیری سوچ پر اس کی تخریبی سوچ پر غالب آ چکی ہے جو اِسے امن کی بجائے جنگ وجدل کی طرف لے جا رہی ہے۔ اسی تناظر میں آج دنیا کے مختلف خطے جنگ و جدل کی سوچ کے تابع خلفشار اور عدم استحکام کا شکار ہیں اور علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے خطرات بتدریج بڑھتے چلے جارہے ہیں‘بے شک اقوام متحدہ ہی وہ واحد نمائندہ عالمی ادارہ ہے جسکے پلیٹ فارم پر بین الریاستی معاملات کے حل کی جانب پیشرفت کی جا سکتی ہے اور علاقائی و عالمی امن و سلامتی کی راہ نکالی جا سکتی ہے۔