امریکن خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے دنیا بھر میں انتشار اور بد امنی کا بازار گرم کر رکھاہے اگر ایک طرف وہ تائیوان کی ہلہ شیری کرنے سے باز نہیں آ رہی تو دوسری طرف یوکرین اور وسطی ایشیا میں ان سیاسی عناصر کی پشت پناہی کر رہی ہے کہ جو امریکہ کے پے رول pay roll پر رہے ہیں سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد بھی وہ آرام سے نہیں بیٹھی۔ افغانستان سے بظاہر امریکہ نکل تو چکا ہے پر پس پردہ اب بھی وہ اپنے خفیہ اداروں اور حواریوں کے توسط سے اس ملک کو سنبھلنے نہیں دے رہا اور ایسے حالات پیدا کر رہا ہے کہ اس کی معیشت برباد ہو جائے۔ واقفان حال کے مطابق بعض طاقتیں پاکستان اور چین کی دوستی کو پروان چڑھتا نہیں دیکھ سکتیں۔اب جہاں تک چین اور امریکہ کے درمیاں تلخیوں کا تعلق ہے تو اس کا مرکز تائیوان ہے۔
ویسے دیکھا جائے تو گزشتہ کئی مہینوں سے شدید تلخیوں کے باجود دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کے درمیان ملاقاتوں کاسلسلہ بھی جاری ہے۔اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات کی۔ امریکہ نے آبنائے تائیوان میں امن و استحکام پر زور دیا جبکہ چین نے امریکہ کو پھر متنبہ کیا ہے۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر گزشتہ روز ایک دوسرے سے بات چیت کی ہے۔ اس سے قبل دونوں وزراء خارجہ کی آخری ملاقات جولائی میں انڈونیشیا کے شہر بالی میں ہوئی تھی،چینی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ چین کے ساتھ رابطوں کے لیے راستے کھلے رکھنا چاہتا ہے، اور اس بات کا اعادہ بھی کیا ہے کہ واشنگٹن ون چائنا(متحدہ چین)کی پالیسی پر قائم ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ بلنکن نے اس بات پر زور دیا کہ آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام کا تحفظ علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے بہت اہم ہے۔انہوں نے یوکرین پر روسی حملے کی بھی مذمت کی اور چین کو خبردار کیا کہ اگر اس نے یوکرین کے خلاف جاری جنگ میں ماسکو کو مدد فراہم کی تو اس کے مضمرات ہوں گے۔دوسری طرف چینی وزارت خارجہ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ چینی وزیر خارجہ نے اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ بات چیت کے دوران کہا کہ واشنگٹن تائیوان کے حوالے سے انتہائی غلط اور خطرناک اشارے بھیج رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جتنا زیادہ تائیوان کی آزادانہ سرگرمیاں بڑھتی جائیں گی، اتنا ہی زیادہ پرامن تصفیہ کا امکان بھی کم ہوتا جائے گا۔
وزیر اعظم کا یہ خدشہ بجا ہے کہ اگر پاکستان کو مدد نہ ملی تو مشکل حالات کا مقابلہ کرنا آسان ہر گز نہیں اور سیلاب سے نمٹنے کیلئے اربوں ڈالرز درکارہیں امیر ممالک قرضوں میں ریلیف دیں۔یہ خبر خوش آئند ہے کہ ملک میں گندم کے وافر ذخائر موجود ہیں اور ٹماٹر کی فصل ملکی ضروریات کیلئے کافی ہے اور یہ کہ آلو اور پیاز کی ایران اور افغانستان سے درآمد بھی جاری ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زراعت کو نئے سرے سے جدید خطوط پر کرنے سے متعلق عملی اقدامات کئے جائیں تو نہ صرف موجودہ حالات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ مستقبل میں بھی اس کے دوررس اثرات سامنے آئینگے۔