کسے یاد رکھوں کسے بھول جاؤں 

سڑک پر جاتے ہوئے جیسے سامنے سے ٹریفک آ رہی ہوتی ہے ویسے ہی دائیں بائیں نظر آنے والے مناظر درخت اور عمارات وغیرہ بھی کاندھے کے پاس آکر پیچھے گذر جاتے ہیں‘یہ مناظر صرف سین ہی نہیں ہوتے  ان میں اور بہت کچھ چھپا ہوتا ہے‘وہ شعر ہے نا کہ ”سرسری تم جہان سے گزرے۔ ورنہ ہر جاجہانِ دیگر تھا“۔مراد یہ کہ یونہی نہ گذر جاؤ جیسے بن آنکھوں گذرا جائے جو دیکھا اس پر غور بھی تو کرو۔ مگر ہم جو دو چارحرف لکھنے والے ہوتے ہیں اگر غور نہ بھی کریں تو تمام گزرنے والے نظارے ذہن کی سیلوو لائیڈ پر ریکارڈ ہو رہے ہوتے ہیں اپنی منعقش تصاویر ذہن کے پردہ ئ سیمیں پر متحرک شبیہات کی صورت یادگار چھوڑ دیتے ہیں‘پہلے تو کالم لکھنے والا جو عام معاشرتی برائیوں پر قلم اٹھاتا ہو وہ ہر چیز پر جو اسے نظر آتی ہے ازخود طریق سے غور کرتا جاتا ہے۔

اسے ان گنت مسائل اور پوائنٹ ملتے رہتے ہیں جن پر وہ اگر غور نہ بھی کرے تو وہ اس کی یادداشت کے تہہ خانے کے گھور اندھیروں میں روپوش ہو جاتے ہیں مگر جب لکھنے لکھانے کاوقت آتا ہے وہ تہہ خانے والے اوپر آکر ہلا گلامچا دیتے ہیں پھر ایسی زور آوری کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو لکھوا کر ہی دم لیتے ہیں‘جو سامنے سے دکھائی دے کر کاندھوں سے ٹکرا کر پیچھے گزر جاتے ہیں‘وہ منظر اپنے اندر ایک جہان کو پوشیدہ رکھے ہوتے ہیں لیکن غور نہ بھی کریں تو سوشل مسائل پر تحریر قلم بند کرنے والے کا ذہن از خود یا خود کار یا پھر خود بخود ان مسائل کو اپنے اندر سموتا جاتا ہے۔

خود تحریر لکھنے والے کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میں نے کیا کیا نوٹ کیا ہے اس نے کہنا ہوتا ہے کہ میں نے کسی بات پر غورو فکر نہیں کیامگر ایک موقع پر اس کو سڑک کنارے کسی نمودار ہونے والے واقعہ کو تحریر میں لانا پڑتا ہے جو اس کے ذہن میں گم شدہ ہوتا ہے اور پانیوں کے نیچے کہیں گھر بنا کر خفیہ خانوں میں گم صم بیٹھا ہوتا ہے مگر وہ واقعہ اس وقت اوپرآکر اپنی پہچان کرواتا ہے کہ اگر تم نے مجھ پر توجہ نہیں دی تو میں نے تم پر ضرور توجہ دی ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں اب تمہاری شخصیت کاحصہ بنا ہوں اور ایسا بنا ہو ں کہ بغیر لکھ کر چھوڑ دینے کے تمہارے پاس میرے جیسے مسئلے کاکچھ حل بھی تو نہیں ہے۔پھر ہمارے معاشرے میں خواہ شہر کی معاشرت ہے یا مجموعی جو صوبے میں ہے یا ملک میں اپنے اندر اس قدر گھمبیرتا رکھتی ہے کہ لکھنے بیٹھو تو کس کس پرقلم آرائی کرو‘یہاں ہر معاملہ کالم نویسی چاہتا ہے کہ لکھو اور خوب لکھو اور لکھ لو تو پھر از سرِ نو لکھو کیونکہ لکھے ہوئے پر عمل درآمد ہو یا نہ ہو مگر دل کی بھڑاس جو نکل جاتی ہے۔

یہ بھی بہت غنیمت ہے۔جیسے کوئی پھوڑا جو درد کرتا ہو اس کو معالج دبا دبا کر اس میں سے رطوبت نکالے او رپٹی کر دے۔اس سے درد میں کمی آ جاتی ہے‘یہاں ہماری معاشرتی زندگی کے زخم زخم بدن پر لا تعداد ایسے پھوڑے دانے پھنسیاں ہیں کہ جن کو ہمہ وقت ایک معالج کی ضرورت رہتی ہے پھر ترقی یافتہ باہر ملک کے معاشروں میں اتنے مسائل تو نہیں ہوتے کہ وہاں بھی خود لکھنے والے معاشرتی مسائل پر ہماری طرح قلم اٹھائیں۔ اب اگر یہاں اپنے معاشرے کے مسائل کے عنوانات بھی جمع کرنا شروع کردوں تو صرف موضوعات کے ٹائٹل پر مبنی کم از کم ہزار صفحات کی کتابو ں کی دس قسط وا رجلدیں تیار ہو جائیں۔اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ہمارے ایک شہر میں سو کالج سکول بھی ہوں تو کم سے کم ہیں کیونکہ پڑھے لکھوں کے اس معاشرے میں ذہن کے اندر کی چھپی ہوئی ناخواندگی بہت زیادہ ہے۔

بیماریاں اتنی ہیں کہ سو ہسپتال ہو ں تو کم ہوں گے اور اتنے سے شہر میں سو یتیم خانے اور دارلکفالے ہوں تو اپنی تعداد کے لحاظ سے اپنی کمی کا احساس دلائیں گے۔غرض جس شعبہ ئ زندگی میں نوٹ کر لیں ہر جا جہانِ دیگر ہے۔ہر جگہ ایک خلاء ہے۔ہر جگہ بہتری کی گنجائش ہے اور ہر جگہ اس کیلئے درد مند ہزاروں دل درکار ہیں کہ معاشرے کی بہتر صورت کیلئے کوشاں ہوں‘کس کس عنوان پر لکھا جائے‘گھر سے نکلو اور گھر آؤ تو درجنوں مسائل ساتھ چمٹ کر گھر کے اندر داخل ہو جاتے ہیں ان کو یا تو اپنی ڈائری میں نوٹ کرنا ہوگا یا پھر ان کو اپنے کپڑے جھاڑ کر گرانا ہوگا مگر تا بہ کے‘ بہ امرِ مجبوری ان کو کہیں نہ کہیں کسی کالم میں جگہ دینا پڑتی ہے۔

 ورنہ یہ خودلکھنے والے کو آزار دینا شروع کردیں گے کیونکہ غبارِخاطر نکل نہ پائے تو یہ اندر ہی اندر رائٹر کو دیمک کی طرح نوچنا شروع کر دیتا ہے پھر خود لکھاری کے اندر چھوٹی موٹی جھڑپیں شروع ہوجاتی ہیں پھر اس بات پر انتخاب کا ڈول ڈالنا ہوتا ہے‘ کسے یاد رکھوں کسے بھول جاؤں۔کون سا لکھوں اور کس کو چھوڑوں۔حساس دلوں کیلئے یہ مسائل جیسے کانٹے ہوں اور مناظر کی شکل میں آنکھوں میں چبھ رہے ہوں جیسے آنکھ میں گر جانیوالا ذرہ ہو جو آنکھ کے ڈوروں کو سرخ کر جائے مگر ایسے بھی ہیں جو سب کچھ دیکھتے ہیں مگر آنکھیں بند کر کے چپ چاپ گزر جاتے ہیں۔ان کو یہ مناظر آنکھوں کے آشوب میں مبتلا نہیں کر پاتے۔