ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے 

وطن عزیز میں آج تک جتنے بھی صدور رہے ہیں ان میں غلام اسحاق خان ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔سادگی قناعت مالی دیانتداری قانون کا احترام اور متانت جیسی صفات ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ بنیادی طور پر تو وہ ایک بیوروکریٹ یا ٹیکنو کریٹ تصور کئے جاتے تھے جہاں ایک لمبے عرصے تک انہوں نے کلیدی عہدوں پر کام کیا اور اپنی خدادا قابلیت کی وجہ سے سول سروسز پر اچھے نقوش چھوڑے اور اس ملک کی بیوروکریسی میں اپنے لئے ایک اعلی مقام پیدا کیا پر جب وہ سینٹ کے چیئرمین اور بعد میں صدر پاکستان کے مناصب پر فائز ہوئے تو ان مناصب کے ساتھ بھی انہوں نے پورا انصاف کیا۔ غلام اسحاق خان کا ایک ہی بیٹا تھا۔جب وہ سینٹ کے چیئرمین تھے تو ان کے سیکریٹری نے ہمیں ایک قصہ سنایا۔ ان کے صاحبزادے نے ان کے سیکرٹری سے کہا کہ وہ کسی کام کی غرض سے بلیو ایریا جانا چاہتے ہیں لہٰذا اس مقصد کیلئے ان کو ایک گاڑی فراہم کر دی جائے۔ 

سیکرٹری صاحب کو غلام اسحاق خان کی طبیعت کا چونکہ اچھی طرح علم تھا کہ وہ ذاتی کاموں کیلئے سرکاری گاڑی استعمال کرنے کے سخت خلاف تھے چنانچہ جب انہوں نے غلام اسحاق خان سے اس مقصد کیلئے اجازت طلب کی تو انہوں نے سیکرٹری سے کہا کہ صاحبزادے کو کہہ دیا جائے کہ وہ ٹیکسی میں چلا جائے۔ اس واقعے کا ذکر ہم نے اس لئے کیا کہ اس ملک کے عوام کو پتہ چلے کہ ہمارے پبلک لیڈروں میں ایک ایسا پبلک لیڈر بھی گزرا ہے‘غلام اسحاق خان سرکاری پیسوں پر نمودو نمائش کرنے کے ازحد خلاف تھے اور سرکاری خزانے سے بے جا اخراجات کو اسراف تصور کرتے۔غلام اسحاق خان ایک لمبے عرصے تک بلا شرکت غیرے اس ملک کے حکمران تھے پر جب انہوں نے اس دنیا سے رحلت فرمائی تو ان کے پاس وہی اراضی تھی جو اپنے والد کی طرف سے انہیں ورثے میں ملی تھی اس میں انہوں نے ایک مرلہ زمین کا بھی اضافہ نہیں کیا تھا۔ اس قسم کے افراد کم ہی ملتے ہیں۔

اب کچھ تذکرہ بین الاقوامی حالات و واقعات کا ہوجائے جہاں یوکرین اور روس کے مابین جنگ و الزامات کا تبادلہ جاری ہے۔میڈیا رپورٹوں کے مطابق یوکرین اور روس نے ایک دوسرے پر شہری املاک کو ہدف بنانے کے الزامات عائد کیے ہیں۔ یوکرین کی فوج نے گزشتہ روز بتایا کہ روسی افواج نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک کے جنوبی حصے میں فوجی اور سویلین اہداف پر درجنوں میزائل اور فضائی حملے کیے۔ ان حملوں میں 35 بستیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ روس نے جنوبی شہر اوڈیسا کے مرکز میں حملوں کے لیے ڈرون کا استعمال بھی کیا۔ یوکرین کی فوج نے بتایا کہ اوڈیسا پر حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔دوسری جانب روس شہریوں اور سویلین اہداف کو نشانہ بنانے کی تردید کرتا ہے۔ روسی سرکاری خبر رساں ایجنسی RIA کی رپورٹوں کے مطابق یوکرینی فورسز نے خیرسون شہر کے ایک ہوٹل پر بمباری کی، جس میں دو افراد ہلاک ہو گئے۔

 روسی افواج نے اس جنوبی شہر پر جنگ کے ابتدائی دنوں سے قبضہ کر رکھا ہے۔روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے ہفتے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ روسی حملے کی مخالفت و مذمت امریکہ اور اس کے زیر اثر ممالک تک محدود ہے۔دوسری طرف روسی قبضے میں آنے والے چار یوکرینی علاقوں میں روس کے ساتھ الحاق کے معاملے پر ریفرنڈم جاری ہے۔ ماسکو کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند یوکرین کے مشرقی علاقوں لوہانسک، ڈونیٹسک، جنوی میں خیرسون اور اس سے متصل زاپوریژیا کے کچھ علاقوں میں یہ ریفرنڈم کرا رہے ہیں۔ اس ریفرنڈم کے نتیجے میں روس کی طرف سے ان علاقوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی اور اس میں سے کسی بھی علاقے میں فوجی حملے کا مطلب روس کی مرکزی سرزمین پر حملہ تصور کیا جائے گا جبکہ یوکرین اور اس کے مغربی اتحادیوں کا کہنا ہے کہ اس ریفرنڈم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

 ان ممالک کا کہنا ہے کہ زیر قبضہ علاقوں کے روس کے ساتھ الحاق پر ریفرنڈم 'دھوکہ دہی کے مساوی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ روس یوکرین جنگ دراصل امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے روس کو دیوار سے لگانے کے بعد شروع ہوئی۔ امریکہ نے یوکرین کو روس کے خلاف اڈے کے طور پراستعمال کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ روس نے پہلے مرحلے میں ہی ناکام بنا دیا ہے اب اگر مقبوضہ علاقوں کو روس کے ساتھ ضم کیا گیا تو روس یوکرین جنگ مزید خطرناک صورت اختیار کر سکتی ہے۔اس وقت بین الاقوامی میڈیا میں روس کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے خدشات ظاہر کئے جار رہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ روس کی طرف سے جنگ میں فیصلہ کن موڑ لانے کیلئے جوہری ہتھیاروں کا استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے یوکرین اور روس جنگ نہ صرف مزید ممالک تک پھیل سکتی ہے بلکہ اسے تیسری جنگ عظیم چھڑجانے کا باعث بھی قرار دیا جارہا ہے۔

 امریکہ نے یوکرین میں جو کارڈ کھیلا ہے وہ اس حد تک تو کامیاب ہے کہ اس نے روس کوجنگ پر مجبور کیا تاہم یوکرین میں امریکی مقاصد حاصل نہ ہوسکے اور بہت سے اہم علاقے روس کے قبضے میں چلے گئے جس سے جنگ کانتیجہ امریکہ کی خواہش کے خلاف سامنے آیا ہے۔ اگر چہ مغربی میڈیا بالکل برعکس نتائج کے حوالے سے رپورٹیں دے رہا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ روس نے امریکہ کی چال کو ناکام بنا دیا ہے۔اس وقت امریکہ کا مقابلہ ماضی کے روس اور چین کے ساتھ نہیں بلکہ اب یہ دونوں ممالک یک جان دو قابل بن چکے ہیں اور انہوں نے امریکی سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے جس طرح مل کر کام کرنے کی پالیسی اپنائی ہے ا س سے طاقت کا نیا توازن سامنے آیا ہے۔