امتیازی سلوک

عالمی تنظیم ’آکس فیم‘ کی بھارت شاخ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں ”انڈیا ڈسکریمینیشن رپورٹ 2022ء“ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارت میں مذہب کے نام پر ہونے والے امتیازی سلوک کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں ’نچلی ذات‘ کے ہندوؤں جیسا کہ آدیواسیوں‘ دلتوں اور مسلمانوں سمیت مذہبی اقلیتوں پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ آکسفیم رپورٹ کے مطابق‘ بھارت میں خواتین بھی امتیازی سلوک اور انتہائی جبر برداشت کر رہی ہیں۔ ان تمام گروہوں کو ایک غیر مساوی سلوک کا سامنا ہے جو انہیں دیہی علاقوں میں زرعی قرضوں اور شہری مراکز میں ملازمت کے مواقع سے محروم کر دیتا ہے۔ ان کے ذریعہ معاش کے مواقع انتہائی محدود ہیں جس کے نتیجے میں بھارتی معاشرے کے دیگر طبقات کے مقابلے میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔

 رپورٹ میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ دیہی علاقوں میں بے روزگاری میں سب سے زیادہ سترہ فیصد کا اضافہ کورونا وبا کی پہلی سہ ماہی کے دوران غیر مسلموں کے مقابلے میں دیکھنے میں آیا۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں مسلمانوں کی تقریباً ایک تہائی آبادی بے روزگار ہے۔ بالغ غیر مسلم آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ سال دوہزاراُنیس بیس میں باقاعدہ تنخواہ والی ملازمتیں رکھتا تھا جبکہ مسلمانوں کے لئے یہ تناسب محض پندرہ فیصد سے کچھ زیادہ تھا۔سال دوہزارپانچ سے دوہزاربیس تک کے پندرہ برس میں بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں تقریباً دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔

 ماضی میں بھی مسلمانوں کے لئے زیادہ سازگار نہیں تھے لیکن موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کے لئے حالات زیادہ بدتر ہو چکے ہیں اور مسلمانوں کو یکساں ملازمتی حقوق حاصل نہیں۔ مسلمانوں کے مقابلے دیگر ڈیڑھ گنا زیادہ کماتے ہیں اور جو مسلمان خود ملازمت کرتے بھی ہیں تو اِنہیں اِس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ اِن کی آمدنی اپنے ہم منصبوں سے تقریباً ایک تہائی کم ہوتی ہے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھارت میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر قومیتوں کے لوگ بھی امتیازی سلوک کا شکار ہیں اور یہ بات عالمی سطح پر اُجاگر کی جا رہی ہے کہ بھارت کے سیکولر ہونے کا دعویٰ باطل ثابت ہوا ہے۔ بھارت بھر میں خواتین بھی مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں جنہیں تعلیمی سطح پر مرد ہم منصبوں کی طرح یکساں مواقع دستیاب نہیں اور ملازمت کی صورت آجروں کے تعصبات اور معاشرے کے مجموعی طور پر قدیم مزاج کی وجہ سے لیبر مارکیٹ میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 تنخواہ دار خواتین کے لئے کم اجرت دو تہائی امتیازی سلوک کی وجہ سے اور ایک تہائی تعلیم یا کام کے تجربے کی کمی کی وجہ سے ہے۔ یہ مجموعی طور پر بھارتی معاشرے کی ایک مایوس کن تصویر ہے جو امتیازی سلوک اور تعصبات کا مجموعہ ہے۔ یہ اقلیتوں اور معاشرے کے پسماندہ طبقات کو طویل عرصے تک نظر انداز کرنے کا نتیجہ بھی ہے۔ بھارت میں متواتر حکومتیں پسماندہ لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے مؤثر اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ بھارت میں برسراقتدار ’بی جے پی ایک نسل پرست جماعت ہے جو ہندوتوا کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔ ایک ایسا عقیدہ جو غیر ہندوؤں کو کمتر مخلوق سمجھتا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف بھارت بلکہ خطے کے لئے بھی تشویشناک ہے۔ حیرت ہوتی ہے جب دنیا اس حقیقت کو جاننے کے باوجود بھارت کے مکروہ چہرے اور شاطرانہ طرزحکمرانی کی مذمت نہیں کرتی۔