اٹلی کے انتخاب میں دائیں بازو کے اتحاد کی ممکنہ جیت یورپی یونین میں طاقت کا توازن تبدیل کرسکتی ہے۔رائے شماروں کے خیال میں انتخابات میں "پانچ ستارے" اتحاد کو بھی اچھی نشستیں مل سکتی ہیں تاہم دائیں بازو کی جیت کے امکانات ساتھ سے اسی فیصد کے درمیان ہیں۔اگر "برادران اٹلی" نامی پارٹی کی انتہائی دائیں بازو کی سربراہ جیارجیہ میلونی کی قیادت میں حکومت بنتی ہے تو یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اٹلی میں انتہائی دائیں بازو کی پہلی حکومت ہوگی۔اگرچہ جیارجیہ میلونی نے اپنی انتہائی دائیں بازو کی ماضی کی سیاست کے خدشات کو مسترد کیا ہے اور ان کے اتحادیوں میں خارجہ پالیسی پر اختلافات کے اشارے ملے ہیں مگر ان کی سرکردگی میں اتحادی حکومت کے امکان پر یورپین یونین کے رہنما پریشان ہیں کہ اس طرح ہنگری اور پولینڈ،جن کے یورپی یونین کے دیگر ممالک سے مغربی جمہوری معیارات پر اختلافات جاری ہیں، کو ایک نیا اتحادی ملک مل جائے گا۔
جرمن میگزین سٹرن نے اپنے پہلے صفحے پر میلونی کی تصویر "یورپ کی سب سے خطرناک عورت ’عنوان کے ساتھ لگائی ہے۔یاد رہے ہنگری اور پولینڈ نے قانون کی عمل داری اور جمہوری معیارات پر یورپ کی سوچ سے ہمیشہ اختلاف کیا ہے۔ ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربن میلونی میں ایک نئی اتحادی دیکھ رہے ہیں جو یونین کی انتظامیہ حاصل کرنے میں اس کا ساتھ دے گی۔ پولینڈ میں سخت قدامت پرست حکومت، جو اکثر اوربن کا ساتھ دیتی ہے، بھی اس بات پر خوش ہیں کہ اٹلی سمیت کئی ممالک میں دائیں بازو مضبوط ہورہا ہے اور یہ یورپ کی پالیسی درست کرنے کا موقع پیدا کررہا ہے۔ جرمنی، فرانس اور بلجیئم کو خدشہ ہے کہ سویڈن میں قوم پرستوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد اگر اٹلی میں بھی ایک مشکل حکومت قائم ہوگئی تو یہ سب مل کر ایک بلاک قائم کریں گے جس کے بعد یونین کیلئے کساد بازاری، توانائی بحران، افراط زر اور خارجہ محاذ پر متفقہ فیصلے کرنا سخت مشکل ہوجائے گا۔
یورپی کمیشن کی سربراہ ارسولا وان ڈیر لیئن نے اٹلی کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ جمہوری اصولوں سے روگردانی کرے گا تو اسے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ارسولا کے اس بیان کو میلونی کے اتحادی لیگ پارٹی کے سربراہ میٹیو سالوینی نے متکبرانہ قرار دیااور کہا کہ آپ کو اطالوی عوام کے آزادانہ، جمہوری اور مقتدر رائے کا احترام کرنا چاہیے۔”پولینڈ کے نائب وزیر انصاف سباسٹین کلیلا نے بھی ارسولا کے بیان پر تنقید کی اور کہا کہ " یورپی کمیشن کی سربراہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر اطالوی عوام ایسی حکومت چنیں گے جسے برسلز پسند نہیں کرتا تو پھر ان کو فنڈز دینے پر پابندیاں لگیں گی۔“واضح رہے یورپی یونین نے ہنگری کو بدعنوانی کنٹرول کرنے کے ضمن میں سات ارب یورو دینے سے انکار کیا ہے کیوں کہ یونین کے خیال میں ہنگری کی حکومت انسانی حقوق، عدلیہ کی آزادی اور تارکین وطن کے بارے میں یورپی پالیسیوں پر عمل نہیں کررہی۔
فرانس اور جرمنی انتہائی دائیں بازو کی اطالوی حکومت بارے اپنے لائحہ عمل پر غور کررہے ہیں جبکہ امریکہ نے بہتری کی امید کرنے اور مایوسی والی باتوں سے اجتناب برتنے کا کہا ہے۔یورپی یونین کے فیصلہ ساز حلقوں کو میلونیا بارے احتیاط کرنا ہوگی کہ اسے دیوار سے لگانے کا نتیجہ اسے ہنگری اور پولینڈ کی طرف دھکیلنا ہوگا جن سے نمٹنے میں پہلے ہی سے یورپی یونین کو مشکلات درپیش ہیں۔یورپی یونین کے اندر توازنِ طاقت براعظم یورپ کے مشرق میں جاری روس یوکرین جنگ اور یہاں بد ترین توانائی بحران، خشک سالی، کم پیداوار اور روز افزوں مہنگائی کے اثرات کی وجہ سے بحرانی کیفیت میں ہے اور کوئی بھی غیر ضروری کشمکش اور کشیدگی اسے مزید سنگین کر سکتی ہے۔اتحادی حکومت کے ممکنہ اختلافات اور چیلنجوں کا اشارہ سابق اطالوی وزیراعظم سلویو برلسکونی، جس کی فورذا اٹالیا نامی پارٹی میلونی کے اتحاد کا حصہ ہے، کے اس بیان سے بھی ملا کہ روس کو یوکرین جنگ پر مجبور کیا گیا ہے۔
اس قسم کے بیانات سے مغربی اتحادیوں کا پریشان ہونا فطری بات ہے اور ایک یورپی یونین اہلکار کے مطابق اب سب نظرین اٹلی پر ہوں گی۔میلونی اگرچہ یورپی یونین پرتارکین وطن بارے نظریات اور خاندانی اقدار کی ترویج پر اوربن کے ساتھ متفق ہیں تاہم انہوں نے معاشی پالیسیاں اور روس کے خلاف یوکرین کی مدد پر یونین اور نیٹو اتحادیوں سے اتحاد برقرار رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔انہوں نے ایک بیان میں ان خدشات کو بے بنیاد قرار دیا جس میں ان کی جیت کو ایک سانحہ، آمریت کے قیام اور یورپ سے اخراج کا پیش خیمہ قرار دیا گیا۔ ان کی اطالوی ہیئت مقتدرہ کے ساتھ ملاقات بھی ہوئی ہے جس میں انہیں قومی پالیسی ترجیحات اور درکار اقدامات بارے بریفنگ دی گئی ہے۔
میلونی نے ابھی تک نہیں بتایا کہ وہ یورپین یونین کی جانب سے 192 ارب یورو کے یورپی بحالی منصوبے میں اپنے حصے کا کام کیسے کرے گی اور اٹلی میں بڑھتے ہوئے شرح سود کے وقت میں اٹلی کے ضخیم قرضوں سے کیسے نمٹیں گی۔اٹلی کاانتخابات میں جو مستقبل کا عکس نظر آرہاہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یورپ میں دائیں بازو کے نظریات اور جماعتوں کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور عوام میں ا س حوالے سے جو رائے بن رہی ہے وہ کئی حوالوں سے یورپ کو بدلنے کا اشارہ دے رہی ہے۔ اٹلی کے انتخابات سے قطع نظر پورے یورپ میں اب ایسی فضاء بنتی نظر آرہی ہے کہ یہاں پر یورپ ایک متحد جسم کی بجائے منتشر اقوام کا ایک اکٹھ بن سکتا ہے۔ جہاں پر امریکہ کا اثر و نفوذ واضح طور پر کم ہوتا نظر آرہا ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اب یورپ پر امریکی گرفت ڈھیلی پڑتی جار ہی ہے جس سے نیٹو کا وجود جو پہلے ہی خطرے سے دوچار تھا مزید خطرے میں پڑ گیا ہے۔
دوسری طرف روس نے یورپ کو نشانے پررکھا ہے اور کمزور یورپ کا مطلب ہے کہ یہاں پر روس کا غلبہ تیزی سے جڑ پکڑ سکتا ہے جس ایک بار پھر سرد جنگ کی صورتحال کا باعث ہوگا۔جرمنی اور فرانس جیسے ممالک جن کے باعث یورپی یونین کی پہچان بنی ہوئی ہے اور اسے ایک معاشی اور سٹریٹجک اہمیت حاصل ہے اب اپنے طور پر الگ الگ پالیسی رکھتے ہیں اور جرمنی جس نے عرصہ دراز کے بعد روس کے حوالے سے اپنی پالیسی بدلی ہے یورپ یونین کے مستقبل کے خاکے میں نیا رنگ بھر سکتا ہے اس طرح فرانس بھی نئے یورپ کی پہچان کے طور پر سامنے آرہا ہے اور وہاں بھی جس قسم کے نظریات پروان چڑھنے لگے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانامشکل نہیں کہ یورپ بدل رہا ہے۔