نقصان اور خسارہ 

پاکستان کے تباہ کن سیلاب نے آلودگی پھیلانے والے امیر ممالک کو جنہوں نے ’فوسل فیول  کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا اور اپنی معیشتوں کو ترقی دینے میں ماحولیاتی آلودگی کی پرواہ نہیں کی جبکہ اِس بارے میں متعلقہ علوم کے ماہر توجہ دلاتے رہے اور اب جب صورتحال یہ ہے کہ پانی سر کے اوپر سے گزر چکا ہے اور موسمیاتی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں تو ترقی یافتہ ممالک سوچنے پر مجبور دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی بحران کے باعث ہونے والے تباہ کن اثرات سے کس طرح محفوظ بنائیں اور اِنہیں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے کتنا معاوضہ (زرتلافی‘ تاوان) ادا کیا جائے‘ اِن دنوں اس طرح کے مالی تعاون کیلئے پسندیدہ اصطلاح ’نقصان اور خسارہ‘ کی ادائیگی ہے لیکن کچھ اِس سلسلے میں مہم چلانے والے مسئلے کو آب و ہوا سے ہونے والے نقصانات کی تلافی  کے طور پر اُجاگر کرنا چاہتے ہیں۔

 انسانی تاریخ کو دیکھا جائے تو اِس قسم کے نقصانات جب بھی ہوئے ہیں اُس کی تلافی کی گئی ہے۔ صنعتی انقلاب کی تاریخی مثال موجود ہے جس کی وجہ سے کاربن کے اخراج اور آلودگی میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ استعماری قوتوں کی بھی ایک تاریخ ہے اور وسائل‘ دولت کی حرص‘ مزدوروں کو لوٹنے اور نچوڑنے کی بھی اپنی ایک الگ تاریخ ہے۔ ماحولیاتی بحران ظلم و جبر کے باہم جڑے ہوئے نظاموں کا مظاہرہ ہے اور یہ استعمار کی ہی ایک قسم اور شکل ہے۔ حالیہ سیلاب کے دوران پاکستان میں اب تک تقریباً سولہ سو لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں‘ کئی لاکھ لوگ بے گھر ہیں اور معاشی بحران کا شکار حکومت کا تخمینہ ہے کہ موسمیاتی تباہی سے ملک کومجموعی طور پر ”30ارب ڈالر“ کا نقصان ہوا ہے۔

 ماحولیاتی آلودگی سے متعلق مہم چلانے والے اس حقیقت کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ ”گلوبل ساؤتھ میں ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے سے سب سے زیادہ دوچار ممالک سب سے کم اس کے ذمہ دار ہیں“ مثال کے طور پر پاکستان گلوبل گرین ہاؤس امیشن کا ایک فیصد سے بھی کم پیدا کرتا ہے جب کہ جی ٹوئنٹی (ترقی یافتہ صنعتی) ممالک ماحول دشمن گیسوں کے اخراج کے لئے ’80فیصد‘ ذمے دار ہیں۔ ترقی یافتہ معیشتوں نے سال 2020ء تک کم ترقی یافتہ ممالک کو 100 ارب ڈالر دینے پر اتفاق کیا تھا‘ یہ ایک ایسا وعدہ تھا جو نبھایا نہیں گیا یہاں تک کہ جو فنڈز جاری بھی کئے گئے وہ بھی قرضوں کی شکل میں دیئے گئے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ گلوبل نارتھ ہمارے سیارے کی آج کی حالت کا زیادہ ذمہ دار ہے۔

ماحولیاتی سائنسدانوں کے گروپ ورلڈ ویدر ایٹربیوشن نے دریافت کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ممکنہ طور پر سیلابوں کی صورت ظاہر ہوتی ہے اور اِسی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات دیگر مقامی عوامل کے علاؤہ بہت زیادہ گنجان آباد انسانی بستیوں‘ انفرا اسٹرکچر جیسا کہ (گھروں‘ عمارتوں‘ پلوں) اور زرعی زمین کے سیلاب کی گزرگاہوں کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے بھی تھے۔ 

نقصان اور خسارے کی ادائیگیوں کے معاملے کو اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیرس نے نومبر میں ہونے والی عالمی موسمیاتی سربراہی کانفرنس کا موضوع قرار دیا ہے اور اُمید ہے کہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے ایک مشترک و بامعنی کاروائی کرنے کیلئے متحد ہو گی کیونکہ کسی بھی ملک کے لئے تن تنہا موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا ممکن نہیں البتہ اگر دنیا متحد ہو جائے تو نہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے ماحول دشمن محرکات میں کمی لائی جا سکتی ہے بلکہ اب تک ہوئے نقصانات کا ازالہ بھی کیا جا سکتا ہے جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں غربت کی شرح میں اضافے کا باعث اَمر ہے۔