ولیمے تو جدید طرز کے ہوٹلوں میں منعقد ہو رہے ہیں۔اب بھی گھر میں یا گھر کے پاس کسی کھلے پلاٹ میں بھی ولیموں کے کھانوں کے پروگرامات کا رجحان موجود توہے۔لیکن ہوٹلوں میں فی کس کے حساب سے شادی کے گھر والے جو بل ادا کرتے ہیں وہ کئی لاکھوں میں ہوتا ہے۔ہر چند وہا ں انواع و اقسام کے کھانے موجود ہوتے ہیں۔اس طرح کہ ہمارے جیسا بندہ کھانے والے پورشن میں جا کر حیران رہ جاتا ہے۔کھانے کی ڈشوں کی طرف دیکھ کر سوچتا ہے کہ کیا کھاؤں کیا نہ کھاؤں۔شادی کے مہمان اپنی بیماریاں او رپرہیز بھول جاتے ہیں۔ بعد میں دیکھ لیں گے یار دل میں کہتے ہیں۔پھر دھیرے دھیرے کھانوں کی طرف لپکتے ہیں۔تاکہ جلدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی کے الزام سے بچ سکیں۔وہاں کھانے کی زبردست خوشبوئیں ہوتی ہیں اور اس وقت کھانے کے انتخاب کرنے کی صلاحیت بندہ میں ضائع چلی جاتی ہے۔صرف فیرنی بھی تو نصف درجن قسم کی ہوتی ہے۔
جیلیاں اور رنگ برنگ روشنیاں پھیلاتی ہوئی کھیریں۔صرف اس طرف بھی توجہ دیں تو افرا تفری کے اس ماحول میں قیمتی وقت کے ضائع ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ اک لمحے کو سوچ ابھرتی ہے کہ اگر چاول گوشت وغیرہ نوشِ جاں کیا۔ پھر اس کے بعد جب کھیر پر جھپٹے تو شاید ہاتھ کچھ نہ آئے۔کیونکہ بعض دوست کھانے کی ابتدا چاولوں کے بجائے میٹھے سے کرتے ہیں۔ کیونکہ حلوہ بھی اپنی جگہ ایک پاور رکھتا ہے۔پھر حلوہ ہزار پرانی ڈش سہی مگر اس نئے دور کے کھانوں کے بیچ میں چمکتا ہوا نظر آ جاتا ہے۔پھر کھانے کے انتظار میں جو شوگر کی بیماری کے ڈسے ہوئے ہیں وہ تو انسولین کے تیار انجکشن ساتھ لے کر آئے ہوتے ہیں۔حتیٰ کہ خواتین کے پورشن میں بھی انسولین کے انجکشن کھانے سے پہلے لگائے جاتے ہیں کیونکہ ڈاکٹر کی ہدایت ہے کہ انسولین کھانے سے پندرہ منٹ پہلے لگائیں۔کچھ حضرات تو تھرمس میں اپنا برف کی ڈلیاں ڈال کر یوں انسولین کی شیشی کو محفوظ کر کے گلے میں پٹے کے سہارے لے کر گھومتے ہیں۔
پھر انسولین کے ہوتے ہوئے چاہئے تو یہ کہ وہ میٹھی ڈشوں کی طرف دیکھنا بھی پسند نہ کریں۔مگر وہ دیکھتے ہیں اور خوب مزے لے کر کھاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے دل کو اس سے ڈھارس ہوتی ہے کہ انسولین ہے نا۔ ہم نے لگا رکھی ہے اب ہم سب کچھ کھا سکتے ہیں۔مگر صحت سے اچھی کچھ چیز نہیں۔آدمی ہے اپنے ارادوں میں کمزور واقع ہوا ہے۔خاص اس موقع پر کہ سامنے چاولوں کی مختلف اقسام دھری ہوں نارنج چاول کے ہوتے سوتے کابلی چاولوں کو دیکھ کر کون ظالم پرہیز کی طرف آمادہ ہوگا۔اگر بلڈ پریشر ہے تو ایک آدھ بار اس موقع پر دو بھری ہوئی پلیٹیں کھالینے سے کیا فرق پڑتا ہے۔بلڈ پریشر کا کیا ہے اس کو کون کنٹرول کر سکتا ہے۔کبھی اوپر اور کبھی نیچے ہوتا ہی رہتا ہے۔سو بسم اللہ کرنے میں کیا حرج ہے۔پھر ان کو یاد بھی کب ہوتا ہے۔ کھانوں کی دلکش پیش کاری دیکھ کر بندہ کے تو اول ہوش ہی اڑ جاتے ہیں۔پھر اس کی یاداشت گم ہو جاتی ہے۔
کوئی دوست جو اس کو منع کرنے والا وہاں موجودہو یا اپنے ہوں تو شوگربلڈ پریشر والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان نصیحت کرنے والوں سے دور کہیں جا کر کھڑے ہوں۔ویسے نصیحت کرنے والے بھی یہا ں اپنے حواس میں کب پائے جاتے ہیں۔اگر کسی کی نگاہ پاس کھڑے کسی پرہیز کرنے والی کی بد پرہیزی پر گئی تو وہ منع کرنے کواگر آدھ جملہ کہہ دیں تو چپ کر کے سن لیں اور ایک کان میں ڈال کر دوسرے سے نکال لیں۔وہ بس ایک ہی جملہ کہے گا اور خود ہی اپنے فن کے مظاہرہ میں باقی سب کچھ بھول جائے گا۔
ویسے چالیس سے اوپر ہوں تو عمر کے اس حصے میں احتیاط کرنا چاہئے۔ پچاس کے ہوں تو میڈیکل چیک اپ کروانا چاہئے۔ پھرپچپن پر پہنچ کر دل کو بچپن کا نہ رہنے دیں۔اپنی جان کی پروا کرنابہت ضروری ہے۔جان ہے تو جہان ہے۔ مگر کچھ ہمارے جیسے سوچتے ہیں کہ کھانا ہے اور کچھ بھی نہیں۔کھاؤ پیؤ او رکل کے بارے میں پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ کل کی کل دیکھی جائے گی۔ جو ہے سو آج ہے کل کس نے دیکھا ہے‘اس لئے تو ایسے لوگ دعوت میں سامنے کے منظر سے ہی لطف اندوزو ہوتے ہیں۔