اگر کوئی شخص میڈیا خصوصا سوشل میڈیا پر سنسرشپ کی بات کرے تو کئی لوگوں کے مزاج پر یہ بات گراں گزرتی ہے اور وہ اسے اظہار رائے کے بنیادی حق کو سلب کرنے کی کوشش قرار دے دیتے ہیں پر کیا یہ حقیقت نہیں کہ موبائل سکرین پر جو مواد دکھایا جا رہا، وہ کسی بھی قاعدے اور قانون کے مطابق نہیں۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب سنسر بورڈ فعال ہوا کرتے تو جس فلم کو سینسر کرتے وقت اس کے ممبران محسوس کرتے کہ کوئی سین مخرب الاخلاق ہے تو وہ اس فلم کو سرٹیفیکیٹ جاری نہ کرتے بصورت دیگر ساتھ مخصوص نوٹ لکھ دیتے کہ یہ فلم کس عمر کے شائقین کیلئے ہے۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے صورتحال یکسر مختلف ہے۔ والدین بھی اپنے بچوں پر مناسب کنٹرول نہیں رکھ رہے اگر طبی نقطہ نگاہ سے بھی دیکھیں تو موبائل سیٹ کی چھوٹی سکرین آنکھوں کی نظر کو وقت سے پہلے کمزور کر رہی ہے۔اب کچھ تذکرہ عالمی حالات کا ہو جائے جہاں افغانستان کی طالبان حکومت نے منگل کے روز روس کے ساتھ اپنا پہلا بین الاقوامی تجارتی معاہدہ کر لیا۔
ماسکو اب کابل کو تیل، گیس اور گندم سپلائی کرے گا۔افغانستان کے وزیر صنعت و تجارت حاجی نورالدین عزیزی کے مطابق طالبان حکومت اور روس کے درمیان رعایتی قیمت پر تیل، گیس، ڈیزل اور گندم خریدنے کا عارضی معاہدہ ہو گیا ہے۔ اور غیر متعین مدت تک ٹھیک چلنے کے بعد اسے طویل مدتی معاہدے میں تبدیل کردیا جائے گا۔گزشتہ برس اگست میں غیرملکی فوج کے افغانستان سے اچانک انخلا کے بعد ملک کا اقتدار سنبھالنے والے طالبان کا یہ پہلا بین الاقوامی تجارتی معاہدہ ہے۔روس سمیت کسی بھی ملک نے طالبان کو افغانستان کے قانونی حکمران کے طور پر ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے۔ حالانکہ روس ان متعدد ممالک میں سے ایک ہے جس نے دارالحکومت کابل میں اپنا سفارت خانہ برقرار رکھا ہے۔ روس کے ساتھ اس تجارتی معاہدے سے طالبان کو تنہائی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ جو عالمی بینکنگ نظام سے اسے الگ تھلگ کرکے رکھ دینے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔
معاہدے کے تحت روس افغانستان کو سالانہ 10 لاکھ ٹن پیٹرول، 10 لاکھ ٹن ڈیزل، 5 لاکھ ٹن ایل پی جی اور 20 لاکھ ٹن گندم فراہم کرے گا۔اس معاہدے کے لیے گزشتہ ماہ نورالدین عزیزی نے روس کا دورہ کیا تھا اور ان کی واپسی کے بعد افغانستان کی تکنیکی ٹیم ماسکو میں رک کر حکام کے ساتھ گزشتہ کئی ہفتوں سے بات چیت کر رہی تھی۔نورالدین عزیزی نے بتایا کہ یہ غیر متعین مدت کے لیے ایک عبوری معاہدہ ہے اور ٹھیک سے چلنے کے بعد اسے طویل مدتی معاہدے میں تبدیل کر دیا جائے گا۔انہوں نے قیمت اور ادائیگی کے طریقہ کار کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا تاہم کہا کہ روس سپلائی کیے جانے والے اشیا پر رعایت دینے کے لیے تیار ہوگیا ہے اور یہ چیزیں ریل اور سڑک کے راستے افغانستان لائی جائیں گی۔روس کی وزارت توانائی اور وزارت زراعت نے معاہدے کے متعلق سوالوں کا جواب فی الحال نہیں دیا ہے۔طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان اقتصادی بحران سے دوچار ہے کیونکہ ملک کو ملنے والی بین الاقوامی ترقیاتی امداد میں کافی کمی کر دی گئی ہے اور اس پر عائد پابندیوں کی وجہ سے بینکنگ سیکٹر تقریبا منجمد ہو کر رہ گیا ہے۔