پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے رہنما (سینیٹر) اسحاق ڈار وطن واپس آ چکے ہیں اور اُنہیں معاشی نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ نواز لیگ کو یقین ہے کہ چوتھی مرتبہ وزیرخزانہ بننے والے اسحاق ڈار کی واپسی سے معیشت میں بہتری آئے گی یعنی مسلم لیگ (نواز) نے اپنا سب سے ”اہم مہرہ“ سیاست میں اتار دیا ہے۔ اسحاق ڈار کی واپسی کے ساتھ ہی انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر سستا ہو رہا ہے اور پاکستان سٹاک ایکسچینج میں بھی تیزی دیکھی جارہی ہے۔ پہلے روز پاکستان سٹاک ایکسچینج کے ایس ای 100انڈیکس 531 پوائنٹس یعنی 1.41 فیصد اضافے پر بند ہوا جبکہ روپے کی قدر 2روپے 63پیسے بہتر ہوئی اور ڈالر کمزور ہوئے کے بعد 239روپے 65پیسے کم ہوکر 237روپے 2پیسے پر بند ہوا۔ مطلب یہ کہ ابھی اسحاق ڈار بطور وفاقی وزیر خزانہ کام شروع بھی نہیں کیا تھا اور معاشی بہتری کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔
بلاشک و شبہ اسحاق ڈار اپنے سیاسی قائد نواز شریف کی طرح وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ گورنمٹ کالج لاہور کے تین دوست نواز شریف‘ اسحاق ڈار اور خواجہ آصف آج بھی نہ صرف بہترین دوست ہیں بلکہ سیاسی حلیف ہونے کے ساتھ قومی فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کا نواز شریف کے ساتھ دوستی کا سفر عہد جوانی میں شروع ہوا جو پیرانہ سالی میں بھی جاری ہے۔ سال 1950ء میں پیدا ہونے والے اسحاق ڈار نے گورنمنٹ کالج لاہور میں نواز شریف کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے بعد برطانیہ سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی۔ 1992ء میں مسلم لیگ (نواز) کی پہلی حکومت قائم ہونے کے بعد وہ سرمایہ کاری بورڈ چیئرمین اور وزیرِ ممکت بنے اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی پالیسی وضع کی جو آج تک چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ وہ وزیرِ تجارت بھی رہے مگر زیادہ شہرت انہوں نے بطور وزیرِ خزانہ حاصل کی۔ وہ اب تک تین مرتبہ وزیرِ خزانہ کے عہدے پر کام کرچکے ہیں اور اب چوتھی مرتبہ اس عہدے پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ (نواز) کے دیگر رہنماؤں کی طرح اسحاق ڈار کو بھی سختیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسحاق ڈار اس وقت چونکہ لندن میں تھے اس لئے حکومت نے انٹرپول سے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کا مقدمہ پیش کیا مگر انٹرپول نے اس تحقیقات کے بعد ریڈ وارنٹ کی درخواست خارج کردی۔ اس کے بعد اعلان ہوا کہ اسحاق ڈار کو برطانیہ سے تحویل مجرمان معاہدے کے تحت وطن واپس لائیں گے۔ اس اعلان پر یہ انکشاف ہوا کہ برطانیہ کے ساتھ پاکستان کا ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے اسحاق ڈار مؤقف پر ڈٹ کر گفتگو کرنے والے انسان ہیں اور وہ مراعات دینے کے سخت مخالف رہے ہیں۔ جب وہ وزیرِ خزانہ تھے تب ’ایف پی سی سی آئی‘ اور دیگر فورمز پر کاروباری برادری کی جانب سے بیل آؤٹ دینے اور بیرونِ ملک رکھے اثاثوں کو ظاہر کرنے کے لئے سکیم متعارف کرانے کا مطالبہ کیا جانے لگا مگر انہوں نے اس قسم کی کسی بھی ایمنسٹی دینے سے انکار کردیا۔