یہ ایسا کرتے ہیں کہ تعمیر کے وقت اپنے گھر کے سامنے اپنی ضرورت کے مطابق ایک بریکرنہیں اچھا خاصا ٹیلہ بنا لیتے ہیں۔ کیونکہ ان کی دہلیز کی چوکھٹ اونچی ہوتی ہے۔پھر جب تعمیر مکمل ہو جائے تو اس اچھے خاصے بریکر کو ختم بھی نہیں کرتے۔جانے دیتے ہیں کہ یہ تو ان کو گھر کے اندر گاڑی سمیت داخل ہونے کے لئے اچھی خاصی سہولت ملی ہے۔یہ رویہ درست نہیں۔کیونکہ سڑک یہاں تھوڑے ناپ میں ہوتی ہے۔پھر یہاں مستقل ایک بہت بڑا سپیڈ بریکر ہمیشہ کے لئے بن جاتا ہے۔جس کو کسی اور کی کیا ہمت کیا حوصلہ کہ توڑ سکے۔ سو گزرنے والے چپ چاپ گزرنے لگتے ہیں۔ دوسرا کھائے سر اپنا جائے بھاڑ میں مگر ان کاجو مطلب پورا ہواتو ان کے لئے بس یہی کافی ہے۔باقی جو ہوگا دیکھا جائے گا۔کون یہاں آئے گا پوچھنے والے بھی تو کالے کوسوں روانہ ہوچکے ہیں۔ ان کو معلوم بھی ہو جائے تو ان کے پاس اتنی نفری نہیں کہ وہ اس کام کے لئے افرادی قوت کو فضول میں جوت کر اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے پھریں۔ سو ہتھ گاڑیوں کو اندر لے جانے اور لانے کے لئے یہ اپنی دہلیز کو سڑک کے ساتھ ہموار کر دیتے ہیں۔ پھر خیر سے ان کا کام سٹارٹ ہو جاتا ہے۔اب زیرِ تعمیر گھر کے اندر گدھوں پر لدے ہوئے بورے جائیں یا لنٹر ڈالتے وقت اینٹیں روڑے اور دیگر سامانِ تعمیر مزدوروں کے شانوں پر رکھ کر اندر لے جائیں۔
وہ مزدور جو اپنے شانوں کے کسی زخم سے آگاہ نہیں ہوتے۔باہر سڑک پر جو ہوتا ہے وہ ہو۔کوئی لڑھک کر گر پڑے کوئی رکشہ الٹ جائے یا کوئی بائیک سوار کسی سے ٹکرا جائے ان کی بلا کو بھی پروا نہیں ہوتی۔کوئی فیملی والے موٹر سائیکل پر جا رہے ہوں اور ان کے ٹائر تلے اس ٹیلے پر کوئی پتھر آ جائے تو وہ منہ کے بل گریں گے۔پھر ایسا واقعہ ہو جائے تو ان کو لاج بھی نہیں آتی۔پھر وہ جو اس راستے کی رکاوٹ کا برا مناتے ہیں ان پریہ توجہ بھی نہیں دیتے۔ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔یہ تعمیرات والے شہر کو خوب بوغمال کر رہے ہیں۔ خوب رجھ کر پامال کر رہے ہیں۔ جس کا جہاں سے جی چاہتا ہے کہ سڑکو ں کو اور راستوں کو کرید کرید کر کھردرا بنا لیتے ہیں۔اب جو گزرے گرے اور چکراجائے ان کو کوئی مسئلہ نہیں۔کسی جگہ اہلِ محلہ بھی تو گلی میں خندق کھدوا کر وہاں سوئی گیس والوں کو بلوا کر پائپ فٹنگ کرواتے ہیں یا پائپ درست کرواتے ہیں مگر واپسی پروہی ملبہ کھدائی پر ڈال کر ایک رکاوٹ سی بنا کر رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ پھر بعض اہلِ محلہ بھی تو ان کے جاتے ہی یوں بے غم ہو جاتے ہیں کہ جیسے یہ ان کی گلی میں رکاوٹ نہ ہو۔
اگر یہ لوگ شہر کو اپنے گھر کی طرح سمجھتے ہوتے تو کبھی ایسا نہ کرتے۔ گھرکے باہر ٹیلہ بنا کر بھول جاتے ہیں۔تعمیر مکمل ہو جاتی ہے۔مگر وہ ٹیلہ گاڑیوں کے پے در پے گزرنے کے بعد دبتا جاتا ہے اور وہاں نوکیلے پتھر ابھر آتے ہیں۔ مٹی تو دب جاتی ہے مگر پتھر اپنی تیز دھار سطح کے ساتھ موجود رہتے ہیں۔ وہاں موٹر سائیکل والے آئیں گے موڑیں کاٹ کاٹ کر بچ بچا کر اوپر نیچے ہو کر جھٹکے کھا کر دوسری گاڑیوں کے طرح گذرتے جائیں گے۔مگر کسی سے نہ ہوگا کہ وہاں رک جائیں اوراس گھرکادروازہ کھڑکھڑا کر مکان والوں سے بولیں کہ یہ آپ نے راہ گذرتے شہریوں کے لئے کون سے پہاڑ بنوادئے ہیں جن کے اوپر سے نیچے یہ کون سے کنویں کھدوا دیئے ہیں۔ہم لوگ مجموعی حیثیت میں بے حس ہو چکے ہیں۔کوئی کسی کے غلط کام کو روکنا تو چھوڑ غلط کہہ بھی نہیں سکتا۔اگر دل میں اسے برا جانے تو یہ ہو سکتا ہے مگر امکان یہ ہے کہ ایسا بھی نہیں ہوتا ہوگا۔کیونکہ ہماری معاشرت پندرہ برسوں میں کچھ عجیب ڈھب پراستوار ہو چکی ہے۔کسی کو کسی کی پروا ہی نہیں رہی۔ سب کوجلدی ہے سب کو کہیں جانا ہوتا ہے کسی کے پاس وقت نہیں جو رک کر کسی برائی کو نہ روکے تو اس کاتفصیل کے ساتھ جائزہ تو لے سکے۔