واضح ہے کہ پاکستان کے معاشی فیصلہ ساز تین طرح کے چینلجز (وبائی امراض‘ تنازعات اور موسمیاتی تبدیلیوں) سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وبائی امراض میں سرفہرست کورونا ہے جس نے عالمی معیشت کو سال دوہزاربیس سے جکڑ رکھا ہے اور اِس کی وجہ سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی معیشت قریب 4.3فیصد سکڑی ہے اور یہ دھچکا کسی بھی طرح معمولی نہیں۔ عالمی تاریخ میں اِس سے قبل‘ اِس قسم کے معاشی حالات عالمی جنگوں کے وقت دیکھنے میں آئے تھے۔ سال دوہزاراکیس میں‘ روس یوکرین جنگ کے آغاز سے پہلے‘ عالمی بینک نے کورونا وبا کے اثرات کی وجہ سے سال دوہزاربائیس کے لئے عالمی جی ڈی پی کی شرح نمو سست رہنے کی پیش گوئی کی تھی۔ یوکرین تنازعہ فروری دوہزاربائیس میں شروع ہوا۔ اس تنازعے کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کے علاوہ اناج‘ توانائی‘ کھاد اور دیگر خام مال کی فراہمی کا نظام متاثر ہوا اور تقریبا ًدنیا کا ہر ملک ہی روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے کسی نہ کسی صورت مشکل سے دوچار ہوا ہے۔
روس پر عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور یہ پابندیاں عائد کرنے والے اب خود ہی مشکل میں ہیں! کم سپلائی (خاص طور پر توانائی) نے عالمی افراط زر (مہنگائی) میں اب تک قریب تین فیصد اضافہ کیا ہے اور اگلے سال عالمی افراط زر میں مزید دو فیصد اضافہ متوقع ہے۔ پاکستان جیسے پٹرولیم درآمد کرنے والے ممالک درآمدی توانائی کی مہنگی قیمت کی وجہ سے اس مہنگائی کا سب سے زیادہ نقصان اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کے ایندھن کی مہنگے داموں خریداری اور اِس کے لئے ادائیگیوں کا بگڑتا ہوا توازن ایک الگ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر بھی کھو رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی افراط زر کے ساتھ ’سست اقتصادی ترقی‘ کو معاشیات میں جمود کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پاکستان اس عالمی جمود کے درمیان موسمیاتی تبدیلی (تباہ کن سیلاب) کا مقابلہ کر رہا ہے۔
فی الوقت قومی فیصلہ سازوں کے لئے چار بڑے چیلنجز ہیں اِن میں مہنگائی پر قابو پانا‘ روپے کی قدر کو مستحکم کرنا‘ کثیر جہتی قرض دہندگان کا اعتماد بحال کرنا اور سیلاب کی بحالی کے لئے مالی وسائل (فنڈز) جمع کرنے جیسے امور شامل ہیں۔ توانائی اور خوراک کی افراط زر پاکستان میں موجودہ قیمتوں میں اضافے کا بڑا سبب ہیں۔ ایندھن کی قیمتوں کو کم کرنے کا انحصار بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرولیم کے نرخوں پر ہے۔ پٹرولیم کی بین الاقوامی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ ’عرب ایکسٹرا لائٹ‘ کی قیمتیں گزشتہ تین ہفتوں میں 102 ڈالر فی بیرل سے کم ہوکر 89ڈالر فی بیرل ہوگئی ہیں۔ اگر یہ رجحان برقرار رہتا ہے‘ تو پاکستان کے پاس ’پی ڈی ایل‘ میں اضافہ کرتے ہوئے پٹرول اور ڈیزل کی گھریلو خوردہ قیمتوں کم کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
اگر روس یوکرین تنازعے میں کسی بھی قسم کی کشیدگی کی وجہ سے خام تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ایسی صورت میں خوراک کی قیمتوں کے محاذ پر مشکل درپیش ہوسکتا ہے کیونکہ مختصر درمیانی مدت میں گندم اور گندم کے آٹے کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اِسے قابو کرنے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔ آنے والے موسم سرما میں یہ صورتحال مزید خراب ہو گی اور یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ گندم کی قیمت کا قابل کاشت زمینوں پر سیلابی پانی کھڑا ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے البتہ اگلے سیزن کے لئے گندم کی بوائی پر منفی اثر ضرور پڑیگا۔
سندھ کی صورتحال مختلف ہے جہاں سے آمدہ اطلاعات کے مطابق محکمہ خوراک کی ملکیت گندم کا ایک بڑا حصہ سیلاب کی وجہ سے ڈوب گیا ہے جبکہ پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ سندھ اور خیبرپختونخوا کو گندم کی فراہمی منصوبہ بندی کے تحت کر رہا ہے سیلاب کی صورتحال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے گندم کا ذخیرہ رکھنے والا نجی شعبہ فائدہ اُٹھا رہا ہے اور وہ گندم کی بہت زیادہ قیمت پر فروخت کر رہا ہے جس کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ذخیرہ اندوز فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور عام آدمی گندم اور گندم کے آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان ہے۔