روسی صدر پر حالیہ قاتلانہ حملے میں امریکہ کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا اس وقت امریک صدر پیوٹن کی جان کے پیچھے بالکل اسی طرح پڑا ہواہے کہ جس طرح کسی زمانے میں وہ کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو یا لاطینی امریکہ کے انقلابی ہیرو شی گویرا کی جان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا تھا۔کاسٹرو کی زندگی پر امریکن سی آئی اے نے نو حملے کراے تھے،پر وہ ان میں ہر مرتبہ بال بال بچ گئے تھے البتہ شی گویرا امریکی سازش کا شکار ہو گیا، اسی طرح کانگو کے قوم پرست لیڈر پیٹرک لوممبا کے قتل کے پیچھے بھی امریکہ کا ہی ہاتھ تھا۔ واقفان حال کے مطابق امریکہ کو جب اس بات کی بھنک پڑی کہ پاکستان اٹیم بم بنا رہا ہے تو امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سینئر افسران نے غلام اسحاق خان پر ہر قسم کا پریشر ڈالنے کی کوشش کی کہ وہ اس پراجیکٹ کو مکمل کرنے سے باز آئیں بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ وہ پاکستان کے اٹیمی پروگرام کے روح رواں تھے اورانہوں نے امریکی پریشر لینے سے انکار کیا اور امریکہ کے آگے چٹان کی طرح ڈٹ گئے تھے۔
اس وقت امریکہ پاکستان اور چین کے تعلقات خراب کرنے پر تلا ہوا ہے۔یہ جو اگلے روز کراچی میں ایک چینی ڈینٹسٹ کوقتل کیا گیا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عام چینی باشندوں اور چینی حکومت کے دل میں پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کی جائے کیونکہ امریکہ پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے سیاسی اور معاشی تعلقات پر کافی نالاں ہے،اس طرح امریکہ کی کوشش ہے کہ ہر اس ملک میں بے چینی پیدا کی جائے جو امریکہ مخالف ہے۔ یہ جو ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں ان کے تانے بانے بھی امریکی سی آئی سے کے ساتھ ملتے ہیں۔ وطن عزیز کے اندر بھی گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردی کے جو گنے چنے واقعات سامنے آنے لگے ہیں ان کے پیچھے بھی وہی قوتیں ہیں جو پاکستان اور چین کے اشتراک سے چلنے والے منصوبے سی پیک کی مخالف ہیں۔
اب کچھ تذکرہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کا ذکر ہوجائے جہاں گزشتہ مون سون میں سیلابوں نے جو تباہی مچائی ہے اس کی تلافی میں کافی وقت لگے گا۔ معیشت اور معاشرت دونوں کو جو نقصان پہنچا ہے اس کے نتیجے میں غربت میں اضافے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے سب سے کم اخراج کرنے والے ممالک میں سے ہونے کے باوجود پاکستان کوموسمیاتی تبدیلیوں سے سخت نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ عالمی برادری کو موسمیاتی بحران کے بوجھ کو مساوی طور پر بانٹنا چاہئے کیونکہ یہ ایک عالمی چیلنج ہے جس کے لئے عالمی رد عمل اور اجتماعی کاروائی کی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ کا یہ بیان قابل ستائش ہے کہ طالبان کو تنہا کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ معاشی تباہی پناہ گزین کی بڑی تعداد اور داعش جیسے خطرات سے نمٹنے کے واسطے دنیا طالبان سے مضبوط تعلقات رکھے۔