خیر اب تو دھوپ میں وہ کاٹ باقی نہیں رہی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ؤں کا راج ہے۔گاہے اگر دھوپ میں تپش ہو تو وہ عارضی ہوتی ہے۔دوپہر ڈھلے موسم میں صبح سمے کی دلکشی لوٹ آتی ہے۔سورج دوپہر عین سر کے اوپر چمک رہا ہوتا ہے تو اسوج کے ہندی مہینے کی دھوپ تن بدن میں چنگاریاں سی بھرتی ہے اور سوئیاں چھبنے لگتی ہیں۔ مگرکہیں چھاؤں ہوں اور وہاں بیٹھ جائیں تو مزاج کو ناگوار نہیں گزرتا۔ سردیوں نے نقارہ پیٹ پیٹ کر شہریوں کو آگاہ کرنا شروع کردیا ہے۔یہ منادی کسی کو سنائی دیتی ہے اور کوئی اس سماعت سے تو کیا اس قسم کے مناظر کی بصارت سے بھی محرومی کا شکار ہیں۔مشین بن کر صبح کام کاج کے لئے جال کاندھے پر ڈال کر نکلتے ہیں او رپرندوں کی طرح قطار در قطار شام گئے اپنے بال بچوں کے پاس لوٹ آتے ہیں۔رُت انگڑائی لے رہی ہے۔
موسم نے اپنے انداز بدلنا شروع کر دیئے ہیں۔ اب گھروں میں بھی اور بازاروں میں بھی راہگیروں اور کام سے آنے والوں کا دل لگنے لگا ہے۔کہیں کہیں حبس کی کیفیت تو موجود ہے۔مگر وہاں جہاں تنگی تُرشی کاماحول ہے۔ جہاں عمارات پیہم ایک دوسرے سے سرگوشیاں کر رہی ہیں جہاں مکانات ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک زنجیر سی بنائے ہوئے ہیں۔وہاں اگر اے سی وغیرہ لگے ہیں تو وہ اندر دیوار و در کی آشنائی ہے جس سے حبس کو قید کیا گیا ہو تاہے۔وگرنہ توموسم پُر بہار ہو چکا ہے اور تپش و حبس کا وہ عالم نہیں جو پہلے تھا۔ اسوج کی دھوپ کہتے ہیں بہت جلاتی ہے۔تن بدن میں کانٹے چھبوتی ہے۔مگر کیا ہے کہ پندرہ دن ہی تو رہ گئے ہیں کہ اس کے بعد سردی بھرپور طریق سے خیمہ زن ہو کر اپنے پنجے گاڑھ دے گی۔
اب تک تو پندرہ دنوں سے سردی کا ہوم ورک جاری ہے۔جلدی ہی یہ وارم اپ ہو جائے تو اب کے لگتا ہے کہ سردی نے بھی خوب ستانا ہے۔پھر یہی احباب و مہربان جو گرمی سے گلہ مند رہتے ہیں وہی پھر سردی کی تھپک کے شکایت کندگان ہوں گے۔ کیونکہ انسان تو ایک حال میں کبھی خوش نہیں رہا۔گرمی ہو تو تپش کا گلہ اور سردی ہو تو یخ موسم کی گلہ مندی۔ مگر سناہے کہ اب توکڑاکے کی سردی پڑے گی۔ کیونکہ جہاں سیلاب نے ارضِ وطن میں جھل تھل مچایا ہوا ہے وہاں عالمی درجہ حرارت کے کارن ہم بے قصوروں کو ا س کی سزا بھگتنا پڑی ہے۔ جہاں ہمارے ہاں ایک فی صد گلوبل ورامنگ پیدا کرنے کی سازشیں ہو تی رہی ہے۔مگر عالمی سطح کے موسمیاتی رد و بدل تو ہوتے قدرتی ہیں۔ لیکن اس تبدیلی میں جدی لانے والے اور آڑھی ترچھی ترامیم کی وجہ یہی انسان ہیں جو آلودگی کو ہوا دے کر اوپرتک پہنچا دیتے ہیں۔
پھر ایک دائرے کے کھیل میں گلیشئر پگھلتے ہیں اور پانی بن کر دریاؤں میں اژدہام مچاکر خوب کھل کھیلتے ہیں۔ جیسے ارضِ وطن کے کھڑے پانیوں میں جن کی نکاسی ممکن نظر نہیں آرہی۔اس پانی میں چلو یہ تو ہوا کہ اب خود کار طریقے سے مچھلیاں پیدا ہوگئی ہیں۔۔کیونکہ پچاس سالوں میں معمولی تبدیلی ہوتی ہے اور سو سال یا اس کے بعد اچھا خاصا موسمی تغیر برپا ہو تاہے۔یہ کھیل سب اوپر تنی ہوئی نیلی چھتری کے آس پاس ستاروں کے آنگن میں کھیلے جاتے ہیں۔اب یہ ہے کہ موسم کی وجہ سے شہرکے رہائش پذیر لوگوں پر اچھے اثرات مرتب ہوئے جا رہے ہیں۔جہاں دھوپ کی تمازت سے بازار سنسان ہو جاتے تھے اور شہری گھر کی پناہ گاہوں میں شیلٹر ہوم بنا کر گھرسے باہر نکلنے کو موقوف کر دیتے تھے۔اب بازاروں میں شہریوں کی آوت جاوت شروع ہو چکی ہے۔
سلسلہ زلف کی درازی کا بے پناہ ہونے والاہے۔سردیوں کی راتوں کی طوالت میں خوب آرام کرنے والوں کے لئے خوشی کی نوید ہے سردی کے اپنے مزے بھی ہیں اور غارت گری کے سامان بھی ہیں۔لیکن اب موسمیاتی تبدیلی کے بہت اس بڑے مظاہرہ کے بعد سردی کے موسم کی ادائیں نوٹ کرنا ہے کہ اس تبدیلی نے موسم کی یخ رُتوں پرکیا اثر ڈالا ہے۔کائنات میں ہر چیز کا سفر اوپر کی جانب تو ہے مگر یہ اوپری راستہ دائرہ کا راستہ ہے جو نیچے آتا ہے اور دوبارہ اوپر جاتا ہے۔
کائنات کی حرکت دولابی ہے۔ہر جا جہانِ دیگر ہے جو گول ہے۔پہلے چھوٹا دائرہ جسے نقطہ کہتے ہیں بنتا ہے اور وہ وقت روانی میں پھیلتا ہے۔ یہ کائنات کا اصول ہے کہ چیزیں پھیلتی ہیں اور وہی دوبارہ سکڑتی ہیں۔تبدیلی اور ردو بدل اور تغیر و تبدل کا قانون سب پر کام کرتا ہے اور ہر کس و ناکس اس کی تلوار کے نیچے آتا ہے۔کوئی بھی اس حوالے سے معافی کا حقدار نہیں ہے۔ کیونکہ یہ سب کے ساتھ ہے اور پھر بہت ضروری ہے۔وقت اپنی جگہ ایک سمجھنے کی چیز ہے جس کو ہم نہیں سمجھتے اور سمجھنے کاموقع ہو تو سمجھنا نہیں چاہتے۔اس پر علامہ اقبال نے ”مسجدِ قرطبہ“ کے نام سے ایک نظم لکھ چھوڑی ہے۔جس کو بغور پڑھنے سے وقت کا فلسفہ سمجھ میں آ سکتا ہے۔