دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی کبھی نہیں رہی جو ہر حال میں لوگوں کے لئے فلاح اور خیر کاباعث بنتے رہے ہیں‘ یہ لوگ اگرچہ مٹھی بھر ہوتے ہیں مگر ان کے کردارکی روشنی چہار سو پھیلی ہوئی ہوتی ہے‘وطن عزیز میں بھی درد دل رکھنے والے لوگ ہر دور میں اپناکردار نبھاتے رہے ہیں۔ ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں خیبر پختون خوا میں سیف اللہ فیملی کی طرف سے مفاد عامہ کے جاری منصوبوں کاذکر کیاتھا جن کی تفصیل کچھ یوں ہے‘ سیف اللہ خان فاؤنڈیشن برائے پائیدار ترقی (ایس ایف ایس ڈی) مندرجہ ذیل شعبوں میں بہتری لانے کے متعدد پروگراموں پر عمل درآمد کر رہی ہے‘ان میں دیہات میں بنیادی صحت عامہ کی سہولیات کی فراہمی پینے کے صاف شفاف پانی کی فراہمی،بے روز گاروں کے لئے ووکیشنل و ٹیکنیکل تربیت تک رسائی،کھیلوں اور صحت مند تفریحی سرگرمیوں کا فروغ،عوامی شعور کی بیداری کے لئے کمیونٹی ریڈیو اسٹیشن کا قیام اہم ہیں‘اس کے ساتھ ساتھ سیف اللہ خان ٹرسٹ کے نام سے 1999ء میں ایک ادارے کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے‘ جو ذہین طلبا ء کو طب انجینئرنگ زرعی سائنسز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اعلیٰ تعلیم کیلئے وظائف دیتا ہے‘ بے شمار طلباء کو جدید علوم کے حصول میں مدد فراہم کی جا رہی ہے‘یہ ٹرسٹ ہر سال پاکستان بھر میں میٹرک ایف اے اور اعلیٰ تعلیم کی سطح پر تعلیم کے حصول کیلئے مستحق طلبہ کو 100 وظائف دیتا ہے اسی طرح ان کاقائم کردہ ودان فاؤنڈیشن اہل وطن کی روزمرہ کی زندگی کے راستے میں حائل مشکلات کو دور کرتا ہے تاکہ وہ انفرادی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کر کے ان کے ثمرات حاصل کر سکیں‘سیف اللہ فیملی کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے لکی مروت کے علاقے میں عوام کو پانی کی سہولت فراہم کی ہیں‘70 فیصد علاقے میں ٹیو ب ویل کام کر رہے ہیں‘ اب یہ علاقہ سر سبز شاداب ہے لوگ فصلیں کاشت کر رہے ہیں‘ان کو پینے کا صاف پانی میسر ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس قسم کی عوام دوستی کا مظاہرہ مندرجہ بالا سیاسی گھرانے نے کیا ہے اس کو مثال بنا کر وطن عزیز کے دیگر سیاسی خاندان بھی عوامی فلاح و بہبود کے کام اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں کریں تو یہ ملک گل گلزار بن سکتا ہے‘بالخصوص ان دنوں جب کہ پاکستان کے مختلف صوبوں میں سیلاب نے سینکڑوں قیمتی انسانی جانوں کو لقمہ اجل بنایا ہے‘بے شمار دیہات اب بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں‘متاثرین بے سرو سامانی میں زندگی بسر کر رہے ہیں‘ ایسے ہی مخلص لوگوں کی اس وقت ضرورت ہے کہ وہ آگے آئیں اور متاثرین کی بحالی میں اپنا حصہ ڈالیں۔