جرمنی میں افراط زر کی شرح

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان خود معیشت کے حوالے سے سخت مشکلات سے گزر رہا ہے‘ایک جائزہ جرمنی کی اکانومی اور وہاں افراط زر کی حالت سے متعلق لیتے ہیں‘جرمنی میں افراط زر کی شرح گزشتہ ماہ دس فیصد کی نئی ریکارڈ حد تک پہنچ گئی‘ اس بارے میں تازہ اعداد و شمار کے اجرا سے قبل کئی بڑے جرمن اقتصادی اداروں نے پیش گوئی کی کہ ملکی معیشت اگلے برس کساد بازاری کا شکار بھی ہو جائے گی‘وفاقی جرمن دفتر شماریات نے بتایا کہ اس مہینے ملک میں افراط زر کی شرح 10 ہو گئی، جو ایک نیا ریکارڈ ہے اس ریکارڈ حد تک زیادہ ماہانہ اضافے میں توانائی کے ذرائع اور اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے کلیدی کردار ادا کیا‘ایک ماہ قبل اگست میں یہی ماہانہ شرح 7.9 فیصد رہی تھی‘جرمنی میں، جو یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے، افراط زر میں یہ اضافہ اور خاص طور پر توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اس سال فروری کے اواخر میں اس وقت سے دیکھنے میں آرہی ہیں، جب روس نے یوکرین پر فوجی حملہ کیا تھا۔اسی وجہ سے روس سے جرمنی سمیت پوری یورپی یونین کو قدرتی گیس کی ترسیل بھی بہت متاثر ہوئی ہے، حالانکہ روسی یوکرینی جنگ سے قبل یورپی یونین کے رکن ممالک گیس کی درآمد کے لئے زیادہ تر روس پر ہی انحصار کرتے تھے۔اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ رواں مہینے تک جرمنی میں توانائی کی قیمتوں میں گزشتہ سال ستمبر کے مقابلے میں 43.9 فیصد اضافہ ہو چکا تھا۔وفاقی دفتر شماریات کے مطابق رواں سال کی تیسری سہ ماہی کے آخری مہینے میں جرمنی میں افراط زر کی شرح اس لئے بھی ایک نئی ریکارڈ حد تک پہنچ گئی کہ اسی مہینے وفاقی حکومت کی طرف سے عام صارفین کو ایندھن کی خریداری پر دی جانے والی سبسڈی ختم ہو گئی۔اس کے علاوہ پورے ملک میں ہر شہری کے لئے قابل رسائی نو یورو ماہانہ کی تین ماہ کے عرصے کے لئے متعارف کردہ وہ اسپیشل ٹکٹ آفر بھی ختم ہو گئی، جس کے ساتھ علاقائی ذرائع آمد و رفت استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی صارف پورا مہینہ پورے ملک میں مفت سفر کر سکتا تھا۔برلن میں موجودہ مخلوط حکومت کے سربراہ اور وفاقی چانسلر اولاف شولس نے ابھی جمعرات 29 ستمبر کے روز ہی اعلان کیا تھا کہ حکومت نے عام شہریوں کو ریلیف دینے کے لئے ایک نیا پروگرام تیار کر لیا ہے، جس کی مالیت 150 بلین سے لے کر 200 بلین یورو 145 بلین سے لے کر 194 بلین ڈالرتک ہو گی۔یہ اعلان کرتے ہوئے چانسلر شولس نے برلن میں صحافیوں کو بتایا، ”جرمن حکومت اپنی ہر وہ کوشش کرے گی، جس کے ذریعے صارفین کے لئے قیمتوں میں کمی لائی جا سکے“اسی دوران جمعرات ہی کے روز جرمنی کے کئی سرکردہ اقتصادی تحقیقی اداروں نے اپنی متفقہ پیش گوئی میں کہا کہ یورپ کی اس سب سے بڑی معیشت میں اگلے سال سے کساد بازاری شروع ہو جائے گی۔مستقبل کے اقتصادی امکانات سے متعلق اپنی رپورٹ میں ان اداروں نے کہا کہ گیس مارکیٹ کی بحرانی صورت حال، توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں مجموعی اضافے اور عام شہریوں کی قوت خرید میں واضح کمی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جرمن معیشت میں 2023 سے کساد بازاری کا دور شروع ہو جائے گا۔آر ڈبلیو آئی نامی اکنامک تھنک ٹینک کے اقتصادی تحقیق کے شعبے کے سربراہ ٹورسٹن شمٹ نے کہا، ''توانائی کے ذرائع کی بہت زیادہ قیمتیں ہی وہ اہم ترین وجہ ہو گی، جو جرمن معیشت کو کساد بازاری کی طرف لے جائے گی۔