یہ تو شہر کے دل میں واقع بازار کا ایک چوک تھا جہاں ہر قسم کی دکانیں اور ہر قسم کی اشیاء دستیاب ہیں‘سروں کے اوپر ہر موبائل کمپنی کے کھمبے لگے ہیں وہ ایک سستے برگر کی سنگل سٹوری دکان میں کھڑا اپنے لئے بریانی کی پلیٹ بنوا رہا تھامگر ساتھ ساتھ موبائل فون پر اس کی باتیں بھی جاری تھیں مگر وہ ایک جملہ بار بار دہرا رہا تھا وہ یہ تھا کہ آواز نہیں آ رہی‘پھر ہم بھی پردے کے پیچھے اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھے تھے۔دو ایک جملے بولتا اور کہتا آواز نہیں آ رہی‘پھر کہتا کہ میں اسلام آباد میں ہوں۔ اس پر تو مجھے بہت حیرانی ہوئی‘اپنی عقل کے بجائے ان صاحب بہادر کی سمجھ پر حیرانی ہوئی کہ یہ کہیں بڑے لوگوں میں سے تو نہیں کہ ہر جگہ ہوں مگر اپنے آپ کو اسلام آباد میں محسوس کریں خیر اس نے کسی وجہ سے جھوٹ بول دیا ہوگا۔مجھے تو موبائل بنانے والوں پر حیرت ہو رہی تھی کہ ایسی ڈیوائس ایجاد کر دی ہے کہ بندہ اس سے جہاں اور بہت کچھ سیکھ لیتا ہے وہاں یہ دروغ گوئی کے لئے بھی کام آتا ہے۔قصہ خوانی بازار میں ایک بندہ جا رہا تھااونچی آواز میں کہہ رہا تھا میں مردان میں ہوں۔ اس وقت بھی مجھے اپنے اوپرہی شک ہوا تھاکہ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں پیدل چلتے چلتے مردان کی حدود میں داخل ہو چکا ہوں۔پھر مجھے علم بھی نہ ہو سکا۔ مگر دکانوں کے سائن بورڈ جو نگاہ میں آئے تو ان پراپنے شہر پشاور کانام لکھا تھا۔خیر برگر کی دکان میں اس بندے نے اچھا خاصا شور مچا رکھا تھا۔اس کے اور ہمارے درمیان نفیس کپڑے کا ایک پردہ ہی تو حائل تھا۔ شاید اس کو معلوم نہ تھا کہ پردے کے پیچھے کیا ہے وہ نہیں جانتاتھا کہ وہاں بھی مخلوق بیٹھی ہوگی جن کومیری یہ تیز طراری ناگوار گزر رہی ہوگی۔ اب ہر تین جملوں کے بعد اس نے کہنا کہ آواز نہیں آرہی لیکن مجھے اندازہ تھا کہ جب وہ اس حد تک جھوٹ کا سہارا لے رہاہے کہ میں پشاور میں نہیں ہوں تو اس پر ایک جھوٹ بول دیناکون سامشکل کام ہے کہ مجھے آواز نہیں آ رہی‘ میری برداشت سے باہر ہو رہا تھاجی چاہا کہ ایک دم سے پردہ نوچ کر ایک طرف کردوں اور کہوں یار آپ کو آواز نہیں آ رہی تو ذرا دکان سے نیچے اُتر جائیں شاید اوپن ایئر میں آپ کو آواز کے سگنل موصول ہونا شروع ہو جائیں۔ اتنی لمبی تمہید کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ رواج کہہ لیں یا عادتِ بد کہیں یا کچھ بھی‘ کہ ہم دورانِ محفل جیب میں موبائل کی گھنٹی بجے تو وہیں بیٹھے بیٹھے دفتری آدمیوں کے درمیان میں فون آن کر کے باتیں کرناشروع کردیتے ہیں۔اس دوران ہمارا احساس مر جاتا ہے کہ کمرے میں علاوہ میرے اور لوگ بھی ہیں جن کانوں پر میری آواز بوجھ بن گئی ہے۔ٹیلی فون کی اس گفتگو میں قہقہے بھی نمایاں ہو تے ہیں اور فون کے دور پار کے دوست کو اپنے شہر میں آنے کی دعوت بھی دی جارہی ہوتی ہے۔اب تو یہ شیوہئ فرسودہ ابنائے روزگار کاہے کہ جس پر ہمیں لاج آنا بند ہوگئی ہے‘حالانکہ تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ فون وائبریشن پر جیب کے اندر ہی رقص کناں ہو تو بندہ اٹھ کر تھوڑی دیرکو کمرے سے باہر چلا جائے تاکہ دوسروں کی سمع خراشی نہ ہو۔مگر ہم ایسا نہیں کرتے۔بعض دوستوں کاجب فون بج اٹھتا ہے‘خوش اسلوبی سے باہر نکل جاتے ہیں کوریڈور سے زیادہ دور جاکر فون سنتے ہیں جب ان کاکوئی خاص قسم کا پرائیویٹ فون آتا ہے۔ وہ اپنی باتوں کے الفاظ دوسروں کے کانوں میں شک ڈالنے کے لئے نہیں انڈیلنا چاہتے تاکہ دوستوں کے سامنے ان کی شخصیت کی تصویر پرخراشیں نہ پڑیں۔