اس میں تو کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفادات کا خیال رکھا ہے اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات میں اس عنصر کو ہمیشہ دیکھا گیا ہے۔ اب جب کہ امریکہ نے حسب روایت پاکستان کے بارے میں اپنا سیاسی پینترہ بدلا ہے اور کئی مواقع پر پاکستان کی موافقت کی ہے لگتا ہے کہ اسے پھر کسی کام کیلئے پاکستان کی ضرورت پڑ گئی ہے ورنہ وہ پاکستان پر واجب الادا 30 ارب روپے امریکی قرض کی واپسی موخر نہ کرتا۔ امریکہ کا ہر قدم اس کے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ہوتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ اس نے کبھی بھی پاکستان کے مفادات کو مقدم نہیں رکھا۔ بلکہ دیکھنے میں تو آیا ہے کہ اس نے زیادہ تر وقت پاکستان کو پابندیوں کا شکار رکھا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں چین نے ہمیشہ پاکستانی مفادات کا خیال رکھا ہے اور پاکستانی معیشت اور دفاع کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں چین نے اہم کردار اداکیا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ بین الاقوامی منظر نامے پر ہمیں امریکہ کی بجائے چین کے مفادات کو ہر قیمت پر مقدم رکھنا چاہئے۔بڑی مشکل سے ہم نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات درست کئے ہیں جن میں اس وقت سے بگاڑ ا ٓگیا تھا کہ جب پاکستان نے سرد جنگ کے دوران کھل کر امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔ دیکھا جائے تو ہم نے خواہ مخواہ امریکہ کی خوشنودی کی خاطر اپنے ایک عظیم ہمسایہ ملک کی دشمنی خرید لی جو ہمیں بہت مہنگی پڑی ہے۔
امریکہ آج بھی روس کے خلاف یوکر ین کی ہلہ شیری کر رہا ہے۔ چین کی سائنسی اور معاشی میدانوں میں حیرت انگیز ترقی امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی وہ اس بات کے درپے ہے کہ جس طرح بھی ہو سکے وہ اسے زک پہنچائے۔ یوکرائن کے معاملے میں روس اور امریکہ میں کشیدگی دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ روس کا روز اول سے ہی یہ کلیم تھا کہ یوکرائن کا 15 فیصد علاقہ اس کی ملکیت ہے جس کو وہ روس کے ساتھ اب ضم کر رہا ہے اور ا س کا باقاعدہ طور پر گزشتہ روز صدر پیوٹن نے ایک مخصوص تقریب میں اعلان کیا۔کریملن کے ایک ترجمان نے بتایا کہ یوکرین کے علاقوں زاپوریژیا، خیرسون، ڈونیٹسک اور لوہانسک میں ریفرنڈم کے بعد ماسکو میں جمعے کے روز ایک خصوصی تقریب میں ان چاروں علاقوں کو روس میں الحاق کو باضابطہ شکل دی گئی۔ اس موقع پر صدر ولادیمیر پوٹن نے بھی اہم خطاب کیا۔صدر پوٹن نے روس کے زیر کنٹرول یوکرین کے دو دیگر علاقوں ڈونیٹسک اور لوہانسک کی آزادی کو تسلیم کرنے کے حوالے سے فروری میں اسی طرح کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ اس طرح یوکرین کے اب ان چاروں علاقوں کو روس میں ضم کرلیا گیا ہے۔
کریملن کے سینٹ جارج ہال میں تقریب کے دوران چاروں علاقوں کے سربراہان نے روس کے ساتھ الحاق کی دستاویزات پر دستخط کر چکے ہیں۔ گذشتہ ہفتے ہونے والے ریفرنڈم میں یوکرین کے ان چار علاقوں میں روس میں شامل ہونے کے لیے ووٹنگ کروائی گئی تھی جسے یوکرین اور مغرب نے”ایک دکھاوا“ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا اور کہا کہ وہ ان علاقوں کو روس کا حصہ کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ اس سے قبل کریمیا کو بھی2014 میں اسی طرح کے ”ریفرنڈم“ کے بعد روس کا حصہ بنایا گیا ہے۔روسی حکومت کا کہنا ہے کہ روس میں شامل ہونے کے بعد چاروں علاقے روس کی"جوہری چھتری" تلے آ گئے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ نے یوکرین میں ریفرنڈم کو مکمل دھوکہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔یوکرین کے چار علاقوں کو ضم کرنے کے منصوبے کے روس کی جانب سے اعلان کے بعد یوکرین کے صدر وولودومیر زیلنسکی نے گزشتہ روز اعلیٰ سکیورٹی، سیاسی اور دفاعی حکام کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس میں شرکت کی۔دوسری طرف امریکہ ہے کہ وہ یوکرائن کو مسلح کر رہا ہے کہ وہ روس کے ساتھ جنگ کرتا رہے اسی طرح وہ تائیوان میں چین کے واسطے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔
اس خطے میں امریکہ اپنی موجودگی اسی طرح چاہتا ہے تاکہ اس خطے میں بیٹھ کر وہ چین اور روس دونوں کے خلاف آسانی سے ریشہ دوانیاں کر سکے۔ یوکرین کو روس کے ساتھ لڑا کر امریکہ نے اپنے جو بھی مفادات حاصل کئے تاہم اس سے یوکرین کو سراسر نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔اسے اپنے اہم ترین علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑے اور امریکہ یا مغربی ممالک نے بھی اس کا محض بیانات کی حد تک ساتھ دیا ہے۔ جو ہتھیار ان ممالک نے یوکرین کو دئیے اس سے وہ روس کا مقابلہ کرنے میں ناکام نظر آرہا ہے کیونکہ روس کا جو مقصد تھا اس نے وہ حاصل کرلیا ہے اور اب اس نے یوکرین کے اہم ترین حصوں کو روس کاحصہ قرار دے کر اہم قدم اٹھالیا ہے۔ دیکھا جائے تو امریکہ کو اس وقت کئی محاذوں پر ناکامی کاسامنا ہے اور ایک با پھر روس نے چین کے ساتھ مل کر ایک اورسر دجنگ کا آغاز کر دیا ہے جس میں امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچانا اور عالمی سطح پر طاقت کے توازن کو برقراررکھنے کا عنصر غالب ہے۔
یوکرین کے وہ علاقے جن کا اب روس کے ساتھ انضمام ہوچکا ہے اہمیت کے حامل تھے اور ان کے ذریعے سے یوکرین کا بحیرہ اسود کے ساتھ رابطہ قائم تھا۔ اگر یوکرین امریکہ کے کہنے میں آکر روس کے ساتھ دشمنی نہ کرتا بلکہ اس پڑوسی ملک کے ساتھ دوستی کرتا تو اس کو ان حالات کا کبھی بھی سامنا نہ کرنا پڑتا۔اب جبکہ روس کے یوکرینی علاقوں پر قبضے کے بعد یوکرین نے نیٹو میں شمولیت کے عمل کو تیز کر دیا ہے اور امریکہ نے اپنی افواج کو الرٹ کردیا ہے تو اس سے یہ امکانات بڑھ گئے ہیں کہ روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی میں آنے والے وقتوں میں مزید کشیدگی آسکتی ہے۔دوسرے الفاظ میں روس امریکہ کے درمیان کسی بھی وقت مسلح جھڑپ تیسری جنگ عظیم کا باعث بن سکتی ہے۔