کسی بھی حکومت کا عوام کی توقعات پر پورا اُترنا آسان نہیں ہوتا بالخصوص ایسے حالات میں جبکہ قرض حاصل کرنے کے لئے عالمی معاہدوں کے تحت حکومتی آمدنی کے ذرائع بصورت محصولات میں اضافے جیسی شرائط تسلیم کر لی گئی ہوں۔ نئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے معیشت مستحکم کرنے کے اپنے منصوبوں کی ایک جھلک دکھائی ہے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی ہے تاہم اِس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے کے لئے بھی کوششیں ہونی چاہیئں۔ بیانات سے عیاں سے ہے کہ مضبوط شرح مبادلہ اسحاق ڈار کی اوّلین ترجیح ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ قیاس آرائی پر مبنی دباؤ کی وجہ سے روپے کی قدر ضرورت سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہے۔وفاقی حکومت کی معاشی ترجیحات اور معاشی فیصلوں میں سرفہرست مہنگائی میں کمی اور معاشی بحالی ہے تاہم اِس سلسلے میں خودکفالت اور حکومتی اخراجات میں غیرمعمولی سمیت تمام حربے اور امکانی تدابیر بروئے کار لائی جا رہی ہیں۔
گزشتہ چار سیشنز میں انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر پہلے ہی 4.18فیصد بڑھ چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کرنسی مارکیٹ میں اسحاق ڈار کی مداخلت کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ حالیہ چند اقدامات سے مختصر مدت کے لئے (چھ ماہ میں) دو بار شرح مبادلہ میں بہتری دیکھی گئی ہے۔ پہلی نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اور اب یعنی بعد میں۔ سچ یہ ہے کہ معاشی اصلاحات آسان نہیں بالخصوص اسحاق ڈار ایک ایسے وقت میں پاکستان واپس آئے ہیں جبکہ وہ پانچ سال قبل خود ساختہ جلاوطن ہو گئے تھے اور آج ملک کا میکرو اکنامک ماحول بہت زیادہ ناگفتہ بہ ہو چکا ہے اور اس صورتحال میں سٹیٹ بینک کو مارکیٹ میں ڈالر جاری کرنے کے سوا کوئی دوسری صورت دکھائی نہیں دیتی جس کے ذریعے روپے کی قدر کو کم ہونے سے روکا جا سکے لیکن سردست مسئلہ یہ درپیش ہے کہ قومی خزانے میں اضافی ڈالر نہیں رہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کے نئے قانون کی وجہ سے شرح مبادلہ کا تعین بھی مارکیٹ کرتی ہے تاہم اِسے مصنوعی طور پر بڑھنے سے روکنے کے لئے سخت اقدامات سے محدود کیا جاتا ہے۔ پھر مہنگائی پر قابو پانے کے لئے مسلسل مالیاتی سختی کی وجہ سے ڈالر اپنی بیس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے‘ جس کی وجہ سے بڑی کرنسیوں کو ہر وقت کی کم ترین سطح پر گرا دیا گیا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ زرمبادلہ کی کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی دباؤ کا شکار روپیہ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ کرنسی کی قدر معیشت کی طاقت یا کمزوری کی عکاسی ہوتی ہے اور اسے اکیلے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ کرنسی مارکیٹ کا اتار چڑھاؤ ختم کرنے کے لئے قیاس آرائیوں پر مبنی حملوں سے روپے کا دفاع کرنا بہت ضروری ہے لیکن شرح مبادلہ کی طویل مدتی پائیداری کا انحصار برآمدات‘ ترسیلات زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری ہے۔
اگر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کی حکومتی صلاحیت بہتر بنائی جاتی ہے تو اِس سے مردہ حال معیشت میں نئی روح پھونکی جا سکتی ہے۔ فی الوقت حکومت تباہ کن سیلاب کے بعد قرضوں اور سود کی واپسی میں ریلیف اورکی تلاش میں ہے جس کے ثمرات بالاخر عوام تک منتقل ہوں گے۔ تاہم کرنسی کے انتظام میں کوئی بھی غلطی معیشت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ پاکستانی معیشت کئی بار اِس مقام تک آنے کے بعد نقصان اٹھا چکی ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ مارکیٹ کی اونچ نیچ سے دور رہا جائے اور قومی معاشی مشکلات کا طویل مدتی حل تلاش کیا جائے۔