پہلے بہت وقت ہوتا تھا۔فرصت کے رات دن تھے۔ مرادوں کی راتیں جوانی کے دن۔فراغت ہی فراغت۔ بہت زیادہ وقت۔ وقت گذر نہ پاتا تھا۔ ٹائم پاسنگ کے لئے ہم نے اپنی سی سرگرمیاں ایجاد کر رکھی تھیں۔ دوستوں کے ساتھ گپ شب کے بہانے تلاشتے۔ پھر سیلانی طبیعت۔جس طرف منہ اٹھایا اس موجودہ سیلاب کی طرح چل دیئے۔گھر سے نکلے تو نہ گھر والے پوچھتے کہ کہا ں گئے نہ ہی ہم خود بتلا کر جاتے۔ کیونکہ عمر ہی ایسی تھی۔ والد اپنی سرکاری افسری کے کاموں میں دن بھر سول سیکرٹریٹ میں فائلیں بغل میں داب کر کبھی ایک افسر کے کمرے میں جا رہے ہوتے اور کبھی اس سے بڑے آفیسر کے روم سے نکل رہے ہوتے۔ان کو اپنے کام سے فرصت نہ تھی اور ہمیں آوارگی سے فراغت نہ تھی۔مگر شکر ہے کہ دوست ایسے ملے جو شریف گھرانوں سے تھے۔ ویسے آج کل کی دوستیوں کا معیار وہ نہیں رہا ہے۔ پھر آج کل کی دوستی یاری میں موبائل نے بھی بیچ میں خفیہ طور پر منفی کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔مگر اب جو زمانے نے اپنے رنگ دکھلائے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ ماضی میں ہمارے پاس کیوں اتنا وقت ہوا کرتا تھا۔سوچتے ہیں کہ ہمارے پاس اب اتنا وقت کیوں نہیں۔
ظاہر ہے جب بندہ اکیلا ہو گھر کی ذمہ داریاں سر پر نہ ہوں شادیاں بیاہ کے جھنجھٹ نہیں بلکہ بکھیڑوں میں قیدی نہ ہوں تو خود بخود فرصت حاصل ہوتی ہے۔مگر اب بہت سے کام نکل آئے ہیں۔وہ کام جن کے حل کرنے کے لئے ہمارے پاس وقت ہی نہیں۔ اب بجلی کے بورڈ کو سوئچ لگانا ہے تو وہ بھی کئی دنوں سے ہماری فراغت کے انتظار میں ہے۔پہلے تو ہمہ وقت ہمارے پاس پلاس او رٹیسٹر ہوتا تھا۔ ہر کام میں ہاتھ ڈالتے بلکہ ہمسایوں وغیرہ کے گھروں میں بھی پلاس لے کر بجلی کی تاروں سے الجھے ہوتے تھے۔ ہائے کیا زمانہ تھا۔اب تو سو سو طرح کی مصیبتیں ہیں جن کو حل ہی نہیں کرنا بلکہ غضب یہ کہ ان کے بارے میں چارپائی پر بیٹھ کر سوچنا بھی ہے۔اس طرح کہ اگلا دیکھے تو کہے کہ یار یہ تو بہت فارغ ہے۔بس بیٹھا ہے اور پاس قہوے کی چینک پڑی ہے او رچینک لنڈھا رہا ہے۔مگر ان کو کیا معلوم کہ ”ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسن۔ کہ دیکھنا ہی نہیں ہم نے سوچنا بھی ہے“۔یہ قصہ خوانی بازار جو ہے۔
یہ پشاور کے پشوریوں کی کتنی ہی نسلوں کی سرگرمیوں کا گواہ اور رازدار رہے۔گھر میں کچھ مزے کی چیز پکی نہ ہو تو ہم قصہ خوانی کی طرف چل دیتے۔ رات کا وقت ہوتا دکانیں بند ہوتیں۔ بند دکانوں کے تھڑے ہم جیسے بے فکروں کے وجود سے بھاری بھرکم ہوتے۔اپنا تکہ کڑاہی کا آرڈر دیتے اور وہاں بیٹھ کر گپ شپ لڑاتے۔ پھر کھانا کھا چکنے کے بعد واک کرتے اور اسی گپ شپ کے انداز میں یہاں سے اندرون شہر گھومتے رہتے۔اب تو برسوں بیت گئے قصہ خوانی کے اس بازار میں کسی دکان کے تھڑے پر بیٹھ کر تکے نہیں کھائے۔ ہر چند اب تو دکانیں بھی بہت زیادہ ہوگئی ہیں اور شہر کے ہر بازار میں ہیں۔پھر بازار بھی بہت زیادہ ہیں۔ہم سے پچھلی نسل کے لوگ بھی ہم جیسی سرگرمی میں مصروف ہوا کرتے تھے۔
اسی طرح تھڑوں پر بیٹھنا اور گپ شپ کے ماحول میں وقت گذاری کرنا۔بلکہ ہم تو گھر ہی نہ آتے تھے۔ سحری کے وقت کہیں جاکر گھرکے دروازے کو اپنی سی چالاکی سے کھول لیتے۔کیونکہ وہاں تالا تو نہ لگا کر آتے او رنہ ہی دروازہ کھلا ہوتا۔گھروالے سوئے پڑے ہوتے اور ہم ہوڑے کے ساتھ ایک ڈوری سی باندھ کر اسے چھپا کر گھر کے باہر لٹکا دیتے۔جس کے بارے میں خود گھروالو ں کو بھی علم نہ ہوتا۔ ہم آرام سے نکل جاتے او رآرام سے گھرواپس بھی پہنچ جاتے۔کسی کو کچھ معلوم نہ ہو پاتا کہ لڑکا گیا کہاں۔ صبح اپنے گھر والوں کو ہم اپنے بستر میں سوئے ہوئے ملتے۔کیا زمانہ کیا دور تھا۔قصہ خوانی کئی نسلوں کے بعد اب بھی نئی نسل کی سرگرمیوں کا امین ہے۔اب تو خیر قصہ خوانی کے بازار عجب لہر سی ہوتی ہے۔رونق پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔وہی سرگرمیاں ہیں مگر نہیں تو ہم وہا ں موجود نہیں۔کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ مصروفیت نے وہ روپ رنگ دکھلایا کہ اب تو ہم کہیں کہ بھی نہیں رہے۔سو طرح کی مصروفیات ہیں۔