بھارت ان دنوں سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور ا س سلسلے میں وہ عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ چند ایک نے حمایت کا یقین بھی دلایا ہے اور کچھ نے مخالفت بھی کی ہے۔یہ پوری دنیا کی بد قسمتی ہوگی اگر بھارت جیسے متعصب ملک کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت مل جائے۔ دیکھا جائے تو بھارت مسائل کو حل کرنے کی بجائے خود ایک مسئلہ ہے۔اس نے پورے خطے کے امن کو داؤ پرلگایا ہواہوا ہے۔یاد رہے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکن کو ویٹو پاور ملتا ہے یعنی اگر سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں سے کوئی ملک خود یا اس کا کوئی حلیف جارح یا غلطی پر ہے تو اس کے خلاف کوئی مخالفانہ کاروائی ممکن نہیں ہے کیونکہ مستقل رکن اس طرح کے اقدام کو ویٹو کردیتا ہے۔امریکہ، روس اور برطانیہ وغیرہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا استعمال کرکے کئی بار خود کو یا اپنے اتحادیوں کو مذمتی قراردادوں سے بچاتے آئے ہیں۔اگرچہ بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہوئے بغیر بھی اب تک اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کرتا آیا ہے اور ان پر عمل درآمد سے انکار کیا ہے لیکن اگر یہ مستقل رکن بن گیا تو پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر میں استصواب رائے کا امکان بالکل ختم ہوجائے گا‘اور اس حال میں کہ بھارت اقلیتوں، نچلی ذات والے لوگوں، صحافیوں کیلئے جہنم، جمہوریت اور انسانی حقوق کیلئے بدنما داغ اور ایک پارٹی فسطائیت کا بدترین نمونہ بنتا جارہا ہے اس اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ خطے اور دنیا کو بھارتی انتہاپسندوں کے رحم وکرم پر چھوڑا جائے
۔یہ اس کے باوجود کہ نہ بھارت نے روس کو یوکرین حملے پر واضح جارح قرار دیا، نہ ا سکے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹ دیا بلکہ مغربی ممالک کی پابندیوں کے علی الرغم روس سے درآمدات بہت زیادہ بڑھا دیں۔بھارت خود کو عالمی قیادت کے لیے پیش کررہا ہے مگر اس کے رہنماؤں میں برداشت، رواداری اور انسانیت کا احترام عنقا ہے۔ اور پھر اس میں کروڑوں لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق 2015 سے 2021 کے درمیان انڈیا ایچ ڈی آر رینکنگ میں مسلسل نیچے جاتا رہا ہے۔یہ دوغلے پن کی حد ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک معاشی فوائد اور منڈی سے فائدہ اٹھانے کیلئے بھارت کی اس حد تک خوشنودی کررہے ہیں کہ جب بھارتی وزیر اعظم مودی نے روس کے صدر پیوٹن سے پچھلے دنوں ملاقات میں کہا کہ یہ وقت جنگ اور نفرت کے بجائے مذاکرات سے مسائل حل کرنے کا ہے تو دنیا واہ واہ کرنے لگی تو کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ جناب آپ پھر کئی برسوں سے اپنے پڑوسی پاکستان سے کیوں مذاکرات، کھیلوں، تجارت اور رابطے کا بائیکاٹ کررہے ہیں؟
یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ اور دیگر بڑی ریاستیں اگرچہ بین الاقوامی تعلقات میں اپنے فیصلے کرتے وقت نام اخلاقی بنیادوں، انسانی حقوق اور آزادیوں کا لیتی ہیں مگر فیصلے وہ اپنے قومی مفادات کے تحت لیتے ہیں۔نیو یارک ٹائمز کے ایک کالم نکار کے مطابق بھارت کے اندر جمہوریت کمزور ہو رہی ہے۔اس میں جمہوریت سے منسلک متعدد سوال اٹھ رہے ہیں۔ لیکن مغربی ممالک اسے چیلنج نہیں کر رہے اور مذمت کرنے سے اجتناب کرتے ہیں تو وہ دراصل بھارت کی حمایت کررہے ہوتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت کسی بھی طرح سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کا مستحق ہر گز نہیں، کیونکہ وہ دنیا میں سلامتی کی بجائے جنگ و جدل کی علامت ہے اور اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہیں،نیپال، سری لنکا، مالدیپ، بھوٹان، چین اور پاکستان سمیت بھارت تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ امن کی بجائے جنگ کی طرف مائل ہے اب ایسے ملک کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ جس طرح پہلے ہی پاکستان نے بھار ت کا اصل چہرہ کئی مواقع پر بے نقاب کیا ہے اب بھی سفارتی محاذ پر سرگرم ہو کر بھارت کی ان کوششوں کا راستہ روکنا ضروری ہے، یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے اور عالمی امن کے مفاد میں ہے۔