ابھی میں نے فی کلو کا حساب نہیں کیا‘ کیونکہ اتنا بڑا کھاتا مجھے نہیں آتا‘وجہ یہ کہ صاحبان اُس وقت سبزی والے سے آلو ٹماٹر لیموں وغیرہ جو خرید لئے تھے‘ یہ بھی کیا کم خریداری ہے۔ان دنوں تو ہر چیز خریدو لگتا ہے بڑی سخاوت کا مظاہرہ کیا۔میں نے کہا تھوڑی سبز مرچ بھی ڈال دو۔ کیونکہ مجھے علم ہے کہ یہ لوگ سبز مرچ تو ویسے ہی مفت میں دو تین ڈال دیتے ہیں‘ پہلے تو یہ تھیلے میں مٹھی بھر کے سبزمرچ چھڑک دیتے تھے۔مگر اب دو تین ڈال دیتے تھے۔ مگر اس دن جو میں خود سبزی خرید رہا تھا‘کیونکہ عام طور سے بچے لے آتے ہیں اور چیزوں کے نرخ معلوم نہیں ہو پاتے‘اس نے کہا کتنے کی سبز مرچ ڈالوں‘میں اس سوال پربہت مایوس ہوااس کی کنجوسی پر افسوس ہوا۔میں تو مفت کے چکر میں تھا۔سوچا دس کی خرید لیتا ہوں بہت ہوں گی دو تین دن تو چل جائیں گی۔ویسے بھی آج گھر میں مسور کی دال پکانے کا آوازہ ہے جو میں نے ساتھ اٹھا رکھی تھی۔ اس میں سبزمرچ تل کر ڈالیں گے اور تڑکا لگی لال دال کا مزہ ہی دوبالاہو جائے گا۔ یوں سمجھیں گے کہ گوشت کھا رہے ہیں۔کیونکہ ان دنوں گوشت کھانے کا تو تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ سو اپنے آپ کو دھوکا دینے میں کیا حرج ہے۔
اس نے دس روپے کی چار مرچیں شاپر میں ڈال دیں۔ میں دیکھ کر حیران ہوا۔ سوچا یہ تو کافی سے زیادہ ناکافی ہیں۔میں سر ہلانے لگا۔ کہا یار ایسا کرو تیس کی ڈال دو یہ بہت کم نظر آ رہی ہیں۔ اس نے دو دونی چار کے حساب سے شاید گن کر ڈالی ہوں چار تئیے بارہ مرچیں ڈال کر میری طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ مجھے سوال سوجھا میں نے کہا مرچیں کتنے کی کلو ہیں۔وہ عاجزی او ربیزاری کے عالم میں کہنے لگاصاحب جی گیارہ سو روپے دھڑی ہیں۔میں تو پہلے ہی کنفیوز تھا اور اس نے اس کے اوپر مجھے حساب کتاب کرنے کے مخمصے میں ڈال دیا۔ میں بغلیں جھانکنے لگا۔ جی میں کہا یہ دھڑی بھی بھلا کون سا پیمانہ ہے۔خیر اپنے آپ کو سمجھ کیلئے پوچھا پاؤ کتنے کی ہیں۔کہنے لگا پچاس کی۔حقیقت معلوم نہیں مگر کچھ الٹ پلٹ حساب بتلا رہا تھا‘ کھانے میں تو سبز مرچ کے شوقین ہر حال میں سبز مرچ کھاتے ہیں۔دو ہی دن کے بعد مجھے پھر دوپہر ایک بجے مرچیں لینے جانا پڑا کیونکہ ختم ہو گئی تھیں۔ میں نے ٹماٹر نہیں لینا تھے سوچا ٹماٹر بھی لے لیتا ہوں پھر کل دوبارہ آؤں گا۔ کیونکہ گاہے ٹماٹر کی چٹنی بھی گھر میں بنا لیتے ہیں وہ الگ مزہ دیتی ہے۔دکاندار نے ٹماٹر دیئے میں نے کہاسبز مرچ بھی ڈال دو پچاس کی۔مگر معلوم ہوا کہ سبز مرچ ختم ہے او رمیں خواہ مخواہ ٹماٹر لے کر واپس ہوا۔ اب جس سبزی والے کے پاس جاتا ہوں اس کے پاس سبز مرچ ختم ہے۔ پکوڑے والے سے پکے ہوئے آلو خواہ مخواہ لے لئے اور ساتھ اس سے کہا تلی ہوئی سبز مرچ بھی ڈال دو اور ذرا زیادہ ڈالنا‘مگر اس نے بھی کنجوسی کا مظاہرہ کیا اور دو چار مرچیں ڈال دیں‘ آلو پکوڑے تھے او رسو روپے کے تھے یہ تو اچھی خاصی خریداری ہے‘مگر اس پر پکوڑے والے کی دریا دلی نہ ہونا مجھے خوب ستا گیا‘ اب میں نے دل میں ٹھانی کہ جہاں سے سبزی لینا وہا ں سبز مرچ کے بارے میں پہلے پوچھنا۔پچھلی مہنگائی میں تو لیموں کا طوطی بولتا تھا۔
مگر اب لیموں تو نیچے آ رہا مگر اس سیلاب کی وجہ سے جہاں فصلوں کی تباہ کاری ہوئی وہاں اب مرچیں تک مہنگی ہوگئی ہیں‘پھرہر دکاندار کا اپنا نرخ ہے کوئی پاؤپچاس کی اور کوئی ساٹھ کی دیتا ہے ہمارے عزیزہیں بہت پیارے اور بہت انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہیں‘کچھ روز قبل ان کے گھرکھانے کا شرف حاصل ہوا تو انھوں نے مٹر گوشت پکایا ہوا تھا‘ میں نے جب مٹر دیکھے اور کھائے اور وہ سبزیاں جو اس سیزن میں موجود نہیں پچھلے موسم میں تھیں وہ بھی نوشِ جاں کیں‘میں نے پوچھا سر جی ایک بات تو بتلائیں۔آپ نے مٹر کہاں سے خریدے‘وہ ہنس پڑے اور کھلکھلا کر ہنسے‘کہنے لگے میں اس سوال کے انتظار میں تھا۔ انھوں نے فریزر میں پچھلے سال کے مٹر چھیل کر سٹو رکئے ہوئے ہیں اور وہ سبزیاں جو اب ناپید ہیں وہ بھی صاف کر کے فریزرمیں محبوس کر دی ہیں‘ان کے اس انتظام پر میں نے ان کو جی کھول کر داد دی‘کیونکہ وہ اپنی سرکاری افسری کے دوران میں بھی قبل از ریٹائر منٹ اسی قسم کی انتظامی خصوصیات کا مظاہرہ کرتے تھے۔