جانوروں (ہم زمین مخلوقات) سے متعلق بالعموم انسانی رویوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ گلی کوچوں اور سڑکوں پر بھٹکنے والے جانوروں کی زندگی عام طور پر دکھی ہوتی ہے اور گردوپیش میں دیکھیں تو بہت ہی کم تعداد میں ایسے لوگ ملتے ہیں جو جانوروں سے بدسلوکی نہیں کرتے اور اُن کے تحفظ کے لئے کوششیں کرتے ہیں۔ وزیراعظم کے سٹریٹجک ریفارمز یونٹ کے سربراہ سلمان صوفی نئے قوانین کے ذریعے اس میں ردوبدل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے ذریعے سب سے پہلے نوآبادیاتی دور میں متعارف کرائے گئے جانوروں کے تحفظ کے قدیم قوانین کو تبدیل کرنا شامل ہے۔ نئے قوانین کی بدولت جانوروں کی درجہ بندی کی جائے گی کہ کون کون سے جانوروں کو بطور پالتو گھروں (نجی ملکیت) میں رکھا جا سکتا ہے جیسا کہ شیر‘ چیتا وغیرہ ایسے جانور ہیں جنہیں بطور پالتو رکھنا اُن کے حقوق اور آزادی کو متاثر کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسے جانوروں کے لئے ’قدرتی رہائش‘ ہی موزوں تصور کی جاتی ہے۔ اگر حکومت بذریعہ قانون سازی جانوروں سے متعلق عوامی و عمومی روئیوں کو تبدیل کرنا چاہتی ہے تو اِس کے لئے نصاب تعلیم میں تبدیلیاں لانا ضروری ہے اور شنید ہے کہ نئے قانون میں اِس حوالے سے بھی غوروخوض کیا جائے گا تاکہ بچوں کو تعلیم کے دوران جانوروں کے حقوق سے متعلق آگاہی اور شعور دیا جا سکے یقینا اِس اقدام سے بچوں کو جانوروں کے ساتھ زیادتی کی بجائے ان کی ضروریات اور حفاظت کے بارے میں علم ہوگا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ جب نصاب تعلیم میں جانوروں کی دیکھ بھال اور حفاظت سے متعلق اسباق شامل کئے جائیں گے تو یہ کوشش صرف انگلش میڈیم سکولوں تک محدود نہیں ہو گی بلکہ اِس
کا دائرہ وسیع رکھا جائے گا اور سرکاری سکولوں کے نصاب اور تدریسی عمل میں جانوروں سے متعلق ہمدردی کے جذبات پیدا کئے جائیں گے۔ کسی بھی معاشرے کی بنیاد اگر محبت اور احترام کے اصولوں پر رکھی جائے گی تو اِس سے جو سلامتی و ترقی حاصل ہوتی ہے وہ پائیدار ہونے کے ساتھ خود اپنی ذات کے لئے بھی مفید ہوتی ہے۔ جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ سب سے برا سلوک سڑکوں پر کتوں یا بلیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے جو بمشکل یہاں وہاں پڑی خوراک پر گزارہ کر رہے ہوتے ہیں اور اِن کی زیادہ تر تعداد تشدد کا نشانہ بنتی ہے تو یہ سراسر زیادتی ہے۔ جانوروں سے بدسلوکی کا خاتمہ ہونا چاہئے لیکن افسوس کہ اِس بارے میں عملاً زیادہ کچھ نہیں کیا جا رہا۔ ضرورت ہے کہ اِس مسئلے کا کوئی ایسا حل نکالا جائے جو رحم اور ہمدردی کے شایان شان ہو۔ جانوروں کی آبادی کم کرنے کے لئے جو طریقہئ کار استعمال کیا جاتا
ہے اُس سے صحت مند و تندرست جانوروں کی موت بھی ہو جاتی ہے۔ اِس سلسلے میں کئی مسلم ممالک کا طرزعمل قابل تقلید ہے جیسا کہ ترکی میں سڑکوں پر رہنے والے جانوروں کو نظرانداز نہیں کیا جاتا اور معاشرے کے درمیان ایک ہم آہنگی کا رشتہ ہوتا ہے۔ لوگ معمول کے مطابق ان جانوروں کے لئے کھانا ڈالتے ہیں اور ایسے جانوروں کو بے یارومددگار نہیں چھوڑا جاتا بلکہ حکومت کی جانب سے اُن کی دیکھ بھال اور علاج معالجہ بھی فراہم کیا جاتا ہے جس کے نتیجے کے طور پر‘ جانور اور انسان دونوں ہم آہنگی سے رہتے ہیں۔ جانوروں کو تکلیف سے بچانے اور اُن کی صحت و خوراک کی ضروریات کا مستقل بنیادوں پر بندوبست کرنے کے لئے خاطرخواہ عملی اقدامات اُس وقت تک کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوں گے جب تک نئی نسل کو جانوروں کا احترام اور اُن کے حقوق سے متعلق تعلیم نہیں دی جاتی اور اگر ایسا کر لیا گیا تو یہ انسانیت کی معراج ہوگی کہ ہمارے ہاتھ‘ پاؤں اور زبان سے انسان و جانور یکساں محفوظ رہیں۔