توجہ طلب امور

 اس وقت اگر کوئی مسئلہ فوری توجہ کا متقاضی ہے تو وہ سٹریٹ کرائمز ہیں جن میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے خاص کر اس وقت اگر یہ مسئلہ کہیں زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے تو وہ عروس البلاد کراچی ہے۔ جو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس موقع پر ہمیں انگریزی زبان کے  ایک مشہور ناول نگار کا وہ تاریخی جملہ یاد آیا کہ انگلستان کے ناقابل اعتبار موسم کا رونا تو ہر ایک روتا ہے پر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اسے ٹھیک کیسے کیا جائے۔اس مرض کا علاج  بھی موجود ہے پر جس طرح اس کا تدارک ضروری ہے اس طرح اس کا علاج نہیں کیا جا رہا۔  اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اس کے عوامل اور تدارک دونوں کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ سٹریٹ کرائمز کی تعداد میں اضافہ کی کئی اور بھی وجوہات ہو سکتی ہیں پر ان میں سر فہرست وجوہات درج ذیل ہیں۔ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، غربت، ممنوعہ بور کے اسلحہ کی بھرمار اور سوشل میڈیا پر دکھایا جانے والا  پرتشدد  مواد اور اس پر سنسرشپ کا  فقدان، ملک کو ایک منظم کریک ڈاؤن کے ذریعے ممنوعہ بور کے اسلحہ سے صاف کرنا ہوگا،عام آدمی  کیلئے ممنوعہ بور کے اسلحہ کے حصول کو ناممکن بنانا ہو گا اگر بہت ہی ضرورت ہے  اورکوئی شہری دشمندار ہے اور وہ اپنی جان کی حفاظت کیلئے کوئی اسلحہ رکھنا چاہتا ہے تو تحقیقات کے بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسے غیر ممنوعہ بور کے پستول کا لائسنس جاری کر سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر سخت قسم کی سنسرشپ لازمی ہے اور ساتھ ہی سنیماؤں میں دکھائی جانے والی فلموں میں بھی پرتشدد مناظر کے حوالے سے سخت پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ اگرہم نے معاشرے سے تشدد کے خاتمے کیلئے ابھی کچھ نہیں کیا تو بہت دیر ہو جائے گی اور پھر اس مسئلے کا حل مشکل سے مشکل تر ہوتا جائیگا۔جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے بے تحاشا مثبت استعمال کے امکانات موجود ہیں مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں کسی بھی ٹیکنالوجی کے مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کرکے ہم اس کے منفی اثرات ہی قبول کرنے لگتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے شہروں میں ٹریفک کی روانی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے اس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے صارفین کو متحد کرکے خود ساختہ مہنگائی کے خلاف محاذ پر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے اور بھی بہت سے مثبت استعمال ہیں، تاہم ہمارے ہاں اگر اس کا کوئی استعمال ہورہا ہے تو وہ جھوٹی افواہوں کو پھیلانے اور ایک دوسرے کا مذاق اُڑانے اور دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے کی حد تک ہے۔ اب  چند دیگر اہم امور کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ جو ملکی اور عالمی سطح پر رونما ہو رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ایران میں جو گڑ بڑ ہے اس کی ہلہ شیری امریکہ کر رہا ہے اور یہ صرف ایران نہیں جہاں امریکہ امن و امان کو خراب کرنے کا کھیل کھیل رہا ہے بلکہ جہاں بھی چین اور روس کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے والے ممالک ہیں وہاں امریکہ کی کوشش ہے کہ وہاں معاشی استحکام نہ آئے اور اس مقصد کیلئے سب سے بڑھ کر بد امنی کو بڑھاوا دینا ہے۔پاکستان کو بھی اس ضمن میں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ سی پیک جیسے منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے پاکستان کی خوشحالی اور معاشی استحکام کے دشمن سر گرم ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس منصوبے کے ثمرات سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کو محروم رکھا جائے۔ ایک خبر کے مطابق جرمنی نے پاکستان کے سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے اپنی امداد میں اضافہ کیا ہے اب سب سے زیادہ جس امر کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ارباب اقتدار ایسا میکنیزم مرتب کریں کہ اس امداد کا صحیح استعمال ہو اس کی تقسیم کی مانیٹرنگ ایک فول پروف سسٹم کے تحت ہونا ضروری ہے۔