فیملی والے لوگ

یہ لوگ موٹر سائیکل پر سوار ہو جاتے ہیں۔ پھر نہ تو چلانے والے کو خود اپنی فیملی کا خیال ہوتا ہے او رنہ ہی پیچھے کی سواری کو چلانے والے سے کوئی شکایت ہوتی ہے۔یہ لوگ سڑکوں پر آزادانہ گھومتے ہوئے نظر آئیں گے۔ بائیک پر چار بچوں کی معصومیت اور ان کی کم عمری کا بھی ان کو خیال نہیں آتا۔مجھ جیسا اکیلا بندہ بھی بائیک پر سوار ہو تو میں سڑک کے بائیں جانب بہت زیادہ بھی ہو تو چالیس کی سپیڈ سے جاتا ہوں۔ڈر ہو تا ہے کہ کوئی ٹھوکر نہ لگا دے۔مگر میں ایسی فیملی والی سواریوں کو دیکھتا ہوں کہ انھیں اپنی جان کا خوف تک نہیں ہوتا بیوی بچوں سمیت دوڑتے چلے جاتے ہیں۔جھپاک سے گزر جاتے ہیں۔ساٹھ کی سپیڈ تو کہیں گئی نہیں۔میرا تو اس خوف سے جسم لرز جاتا ہے کہ وہ جا بھی تیز رہے ہوتے ہیں اور پھر سڑک کے عین درمیان میں دوسری بھاری گاڑیوں کے بیچوں بیچ ہوتے ہیں۔پھر سڑک کے دائیں طرف کے کنارے کو جیسے چُھو رہے ہوتے ہیں۔ معصوم بچے ساتھ ہوتے ہیں اور بیگم صاحبہ بھی خاموش تماشائی بن کر پیچھے بیٹھی ہوتی ہیں۔ان دونوں میں سے کسی کو خوف محسوس نہیں ہوتا۔ اگر خدانہ کرے کسی مصیبت سے دوچار ہو جائیں تو بچوں کا کیا بنے گا ان کو اس اچانک کے حادثے میں کون بچا ئے گا۔ سڑک پر خود اپنا خیال نہ کرو تو دوسرا اتنا فارغ نہیں کہ وہ آپ کا خیال کرے گا۔ یہ سڑک ہے یہ بہت بے وفا چیز ہے۔یہ کسی کی پروا نہیں کرتی کسی کا خیال نہیں کرتی۔کوئی مرتا مر جائے مگر یہ اس کی مدد نہیں کرے گی۔ جب تک وہ خود اپنا خیال نہیں کرے گا۔ میں اکثر سڑک پر گھومتا ہوا پایا جاتاہوں۔میرے شاگرد مجھے سر سر کہہ کر روک لیتے ہیں۔وہیں ان سے فٹ پاتھ پراگر بات چیت ہو تو ہو ورنہ تو میں کسی کے ہاتھ نہیں آتا۔کیونکہ مجھ میں بھی تیز رفتاری کے جراثیم بہ درجہ اُتم موجودہیں۔مگر اب اتنی بھی تیز طراری سے خدا بچائے جو یہ بیوی بچوں والے اپنے موٹر سائیکل پرانجام دیتے ہیں۔ان کودیکھ کرکہ سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے جاتے ہیں جسم کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں۔اب بندہ ان کو روک کر نصیحت کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔کیونکہ ان کا پیچھا کرنے کے لئے ان جیسی برق رفتاری چاہئے جو ہم سے ہو نہیں سکتا۔ اگر ہو بھی تو کوئی کیا کہے گا کہ شریف شہریوں کا پیچھا کر رہا ہے۔پھرروکیں بھی تو کس کس کو روکیں گے۔ایک تو نہیں یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ٹریفک سگنل پر گاڑیاں کھڑی ہوں گی مگر فیملی والا یہ بائیک چپکے سے وہاں سے سگنل توڑ کر آگے نکل جائے گا۔ یہ شریف شہریوں کے کرنے کے کام نہیں۔میں بھی لال بتی پر وہاں کھڑے کڑھن کاشکار ہو رہاہوتا ہوں مگر یہاں ذرا سی غلطی مجھ اکیلے کے لئے بھی وبالِ جان بن سکتی ہے۔پھرٹریفک سگنل توڑنا بھی کون سا اچھا کام ہے۔شہری جب تک خود شہری قانون کا پاس نہیں کریں گے تو کون آئے گا جو اس قانون کی رکھوالی کرے گا۔ افسوس تو ان بچوں کو بائیک پر بٹھا کر تیز جانے والے مرد پر ہوتا ہے۔ہم تو چڑیا بھی پاس سے گزرے تو دبک جاتے ہیں۔ہمارابھاری بھرکم جسم ہے بوڑھی ہڈیاں ہیں اور بیماریوں کے محبوب شکار ہیں۔کہیں زخم لگ گیا تو ہمارے زخم تو بڑی دیر میں شفایاب ہوتے ہیں۔اس لئے تیزی کو پیچھے چھوڑکر سستی سے آگے بڑھتے ہیں۔کیونکہ بائیک پر بہت دفعہ اورکافی سے زیادہ بار بال بچوں سمیت گرے ہیں جس سے اب دل میں ایک خوف پروان چڑھا ہے۔اصل میں موٹر سائیکل کی سواری سے زیادہ عارضی اور انتہائی کمزور سواری کوئی اور ہے بھی نہیں۔یہ تو بنیادی طور پر سائیکل ہے مگر ہمارے مہربان اس بات کا خیال نہیں کرتے۔چلو جو لڑکے بالے ہیں ان کو تو جب اپنی جان کی پروا نہیں ہوتی تو اور کس چیز کا خیال کریں گے۔وہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ایک بائیک پر تین تین سوا رہو کر زگ زیگ کی طرح بلکہ سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے جیسے پریوں کے تخت ہوا میں اڑتے ہیں یوں گزر جاتے ہیں۔ان کو تو چھوڑیں کیونکہ وہ تو ہماری کتاب میں اچھے ناموں کے ساتھ مذکور نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ تو نہ ماں باپ کی مانتے ہیں اور نہ کسی بزرگ اور سینئر کی بات کوسمجھنا چاہتے ہیں۔مگر یہ فیملی والے بائیک سوار کیا کرتے ہیں۔معصوم بچوں کی طرف بھی ان کادھیان نہیں جاتا۔