موسمیاتی تبدیلی ایک بڑا چیلنج

یہ امر افسوس ناک ہے کہ وطن عزیز کے 57 فیصد عوام موسمیاتی تبدیلی کی اصطلاح سے لاعلم ہیں یہ کام صرف حکومت کا ہی نہیں بلکہ ابلاغ عامہ کے تمام اداروں کے ساتھ ساتھ تمام عوامی لیڈروں کا بھی ہے کہ وہ عام کو یہ باور کرائیں کہ کون کونسے ایسے اقدامات ہیں کہ جو وہ اپنی اپنی سطح پر لے کر موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔ شجر کاری کا ملک بھر میں انقلابی بنیادوں پر فروغ بھی موسمیاتی تبدیلی کی شدت کو کم کر سکتا ہے پر صرف پودا لگانے سے بات نہیں بنے گی بلکہ پودے کی نگہداشت اس طرح کرنا ہوگی کہ جس طرح انسان اپنے بچوں کی کرتا ہے‘ چین تو ایک عرصہ دراز سے اس قسم کے قانون پر سختی سے عمل درآمد کرا رہا ہے کہ کسی چینی کو درخت کاٹنے کی اجازت نہیں ہے اور اگر کوئی فرد ایک درخت کسی ضروری کام کیلئے کاٹے گا تو اس کے بدلے میں اسے دو پودے لگانا ہوں گے اور پھر ان کے تنا ور درخت بننے تک ان کی آبیاری بھی کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ وطن عزیز کی حکومت کو وہ تمام اقدامات اٹھا کر ان پر سختی سے عمل پیرا ہونا ہو گا جن سے فضاء میں کاربن کا اخراج ختم یا کم ہو جائے۔  آج وقت کا تقاضا ہے کہ اس ضمن میں کسی بھی مصلحت سے اجتناب کیا جائے کیونکہ اگرہم نے ابھی سے کلائمیٹ چینج کا ہنگامی طور پر مقابلہ کرنے کا فیصلہ نہ کیا تو یہ مسئلہ ہر سال وطن عزیز کو درپیش ہو سکتا ہے جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔اب اگر ہر سال موجودہ مون سون جیسے سیلابوں سے واسطہ پڑے تو کون ان کی تباہی کو ٹال سکتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں جو معاشی اور اقتصادی مسائل سر اٹھاتے ہیں ان کا مقابلہ کیسے ہر سال کیا جا سکتا ہے اس لئے تو ضروری ہے کہ اب موسمیاتی تبدیلی کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔اب کچھ تذکرہ عالمی منظر نامے کا ہوجائے جہاں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے اجلاس کے موقع پر بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پرشدید احتجاج کیا گیا۔جینیوا میں ہونے والے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے اجلاس کے موقع پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے بھارت میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں اور ہمسایہ ممالک کے معاملات میں مداخلت پر احتجاجی مظاہرہ کیا‘مظاہرین نے کہا کہ بھارت سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال میں مداخلت کررہا ہے۔مظاہرین نے پوسٹرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس پر بھارت کے خلاف نعرے درج تھے‘بھارت کیخلاف نعرے بازی بھی کی گئی۔مظاہرین نے اقوام متحدہ سے بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ہمسایہ ممالک کے معاملات میں مداخلت روکنے کیلئے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت اگر کوئی ملک دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے بد ترین ریکارڈ رکھتا ہے تو وہ بھارت ہے جہاں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے اور انہیں امتیازی قوانین کا سامناہے۔کئی کشمیری لیڈر اس وقت بھارتی جیلوں میں بند ہیں اور کالے قوانین کے تحت ان کو نہ تو قانونی معاونت تک رسائی ہے اور نہ ہی صحت سہولیات تک۔کئی لیڈروں کی حالات تشویش ناک ہے جن میں یاسین ملک، شبیر شاہ اور آفتاب شاہ قابل ذکر ہیں،سول سوسائٹی اور عالمی انسانی حقوق کے ادارے تو بھارت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تاہم اب عالمی برداری کو بھی اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہئے۔