کرکٹ: قابل علاج امراض

سترہ سال میں پہلی بار پاکستان کا دورہ کرنے والی برطانوی کرکٹ ٹیم کے خلاف سات میچوں کی ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی سیریز کا فائنل مقابلہ پاکستان ٹیم کی انتہائی مایوس کن اور ناقابل یقین کارکردگی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا ہے۔ قذافی سٹیڈیم (لاہور) میں کھیلے گئے فائنل مقابلے کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے میزبان ٹیم نے مہمان ٹیم کے ساتھ طے کر رکھا تھا کہ اُسے ہر حال میں میچ جتوانا ہے۔ یہ پہلو بھی ذہن نشین رہے کہ برطانیہ کرکٹ ٹیم اپنے بہت سے نامور (سٹار) کھلاڑیوں کے بغیر پاکستان آئی اور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سات میچوں کی سیریز چار تین سے جیت لی۔ عمومی تاثر ہی تھا کہ ’اسٹینڈ اِن کپتان‘ معین علی کی قیادت میں مہمان ٹیم اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے پرعزم تھی۔ فیصلہ کن فائنل میچ میں‘ برطانیہ نے ڈیوڈ ملان کے سینتالیس گیندوں پر ناقابل شکست اٹھتہر رنز اور ہیری بروک کے ناٹ آؤٹ چھیالیس رنز کی بدولت پاکستان کی جانب سے بیٹنگ کرتے ہوئے تین کھلاڑیوں پر دوسونو رنز بنائے۔ سیریز جیتنے کے لئے پاکستان کو ریکارڈ رنز کا تعاقب درکار تھا لیکن وہ اپنی اننگز کے آغاز میں ہی اوپنرز بابر اعظم اور رضوان کو کھونے کے بعد سنبھل نہیں پایا۔ کرس ووکس نے تین وکٹیں حاصل کیں اور پاکستان ٹیم صرف ایک سو بیالیس رنر ہی بنا سکی جس سے برطانیہ نے سیریز کا آخری میچ 67رنز سے جیت لیا۔یہ ایک آسان نظرآنے والی سیریز کا مایوس کن اختتام تھا جس پر شائقین کرکٹ میں مایوسی پائی جاتی ہے اور وہ قومی ٹیم کی اِس خراب کارکردگی کو کسی صورت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان نے یہ دکھانا جاری رکھا کہ وہ کراچی میں دس وکٹوں کی شاندار فتح اور لاہور میں سیریز کے آخری میچ میں نرمی سے ہتھیار ڈالنے جیسے نتائج دے سکتا ہے دوسری طرف برطانوی ٹیم نے اپنی طاقت سے زیادہ طاقت اور کارکردگی سے زیادہ بڑی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ برطانوی ٹیم اپنے کپتان جوس بٹلر‘ جونی بیرسٹو اور لیام لیونگ اسٹون سمیت اپنے کچھ اہم کھلاڑیوں کے بغیر کھیل رہی تھی لیکن ہیری بروک‘ بین ڈکٹ اور فل سالٹ نے کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ چند ہفتوں بعد آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ مقابلے شروع ہونیوالے ہیں اور یقینا برطانوی ٹیم کے حوصلے پاکستان کیخلاف سیریز جیتنے کی وجہ سے بلند ہوئے ہیں‘ یہ جولائی دوہزاراکیس کے بعد سے ’ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنلز‘ میں برطانیہ کی پہلی سیریز جیت تھی اور اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ برطانوی ٹیم ورلڈ کپ میں اعتماد کے ساتھ جائے گی۔ دریں اثنا پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی نے تربیت اور کھیل کے حوالے سے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے‘ جن کا جواب ماضی کی طرح کوئی بھی دینا پسند نہیں کرے گا کیونکہ اب کھیل پاکستان کے لئے نہیں بلکہ تعلق‘ دوستی اُور رشتہ داریوں کی بھینٹ چڑھ گیا ہے! برطانوی کرکٹ ٹیم جانتی تھی کہ پاکستان کی بیٹنگ لائن زیادہ تر بڑے ٹوٹل کا تعاقب کرنے سے قاصر ہے‘ خوشدل شاہ جیسے غلط کھلاڑی کے ساتھ ڈٹے رہنے کی حکمت کے بارے میں سوالات پوچھے جا رہے ہیں‘ ان کے کھلاڑیوں کا فٹنس لیول درست نہیں لگتا۔ فاسٹ باؤلر شاہین آفریدی سے لے کر نائب کپتان شاداب خان تک‘ ماضی قریب میں بہت زیادہ انجری کے خدشات رہے ہیں اور یہ مستقبل میں قومی ٹیم کیلئے خطرے کی نشاندہی کر رہی رہی ہے‘اس لئے ضروری ہے کہ قومی ٹیم میں کھلاڑیوں کی فٹنس کے حوالے سے قواعد کی پابند کی جائے اورانہی کھلاڑیوں کو شامل کیا جائے جو مکمل فٹ ہوں۔