یہ بات قابل اطمینان ہے کہ خیبر پختون خوا میں بعض بڑی دہشت گرد کاروائیوں اور خدشات کے بعد جس نوعیت کا خوف پیدا ہوگیا تھا عوام کے اتحاد اور فورسز کے اقدامات کے باعث اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگئی ہے حالانکہ خدشہ یہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ شاید افغانستان میں جاری پراکسیز کے باعث حالات خدانخواستہ پھر سے ماضی قریب کی طرح خراب ہوجائیں گے۔سوات میں جب بعض بڑے واقعات سامنے آئے تو جہاں ایک طرف ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے پرامن احتجاج کرکے حملہ آوروں کو واضح پیغام دیا وہاں کور کمانڈر پشاور نے سوات کا دورہ کرکے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ سوات سمیت کسی بھی علاقے کو حملہ آوروں کی رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جائے گا اور ہر قیمت پر امن کو یقینی بنایا جائے گا۔ بعد ازاں 28 ستمبر کو کور کمانڈر کانفرنس میں اس صورت حال اور ممکنہ چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردی کو کسی بھی طور برداشت نہیں کیا جائے گا اور ماضی والی صورتحال برداشت نہیں کی جائے گی۔اس موقع پر درپیش چیلنجز پر نہ صرف تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا بلکہ مجوزہ لائحہ عمل بھی طے کیا گیا۔یہ مبینہ کالعدم تنظیموں کے لئے ملٹری لیڈر شپ کا واضح پیغام تھا۔اس دوران سوات اور قبائلی علاقوں سمیت متعدد دوسرے اضلاع میں ٹارگٹڈ آپریشن بھی کئے گئے جس کے باعث حملہ آوروں کو کسی بڑی کاروائی کا موقع نہیں ملا اور مجموعی طور پر حالات قابو میں رہے۔اب کے بار عوام اور ریاستی ادارے ایک پیج پر نظر آئے جس سے حملہ آوروں پر واضح ہو گیا کہ ان کے لئے اب پہلے والا ماحول دستیاب نہیں ہے۔ایک تحقیقی ادارے کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ستمبر کے مہینے میں ہونے والی مختلف کارروائیوں میں 40 افراد جاں بحق ہوئے جن میں 19سیکورٹی اہلکار شامل ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فورسز میدان میں کھڑی رہی اور لڑتی رہیں کیونکہ اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 60 فی صد حملے فورسز پر کرائے گئے۔فورسز نے جوابی کاروائیوں میں 18 دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا جبکہ 4حملوں کو ناکام بنایا۔رپورٹ کے مطابق ستمبر کے مہینے میں بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں جولائی اور اگست کے مقابلے میں حملوں کی تعداد میں 41 فی صد کمی واقع ہوئی جہاں 8حملے کئے گئے۔ اس دوران پاک افغان سرحد پربھی سرحد پار سے دو تین حملے کرائے گئے جن کا پاکستانی فورسز نے بھرپور جواب دیا۔دوسری جانب افغانستان سے تحریک طالبان پاکستان کے بعض گروپوں کے اختلافات اور ایک دوسرے پر حملوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں۔ ایسی ہی ایک باہمی جھڑپ کے دوران وزیرستان، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں متعدد بڑی کاروائیوں میں ملوث ایک اہم کمانڈر کی ہلاکت کی اطلاع بھی ملی جبکہ بعض بنیادی ایشوز پر شدید اندرونی اختلافات کی خبریں بھی زیرِ گردش ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چیلنجز بوجوہ موجود ہیں اور اسی تناظر میں دوطرفہ کاروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ اب کی بار بعض حلقوں کے پروپیگنڈے اور روایتی بیانیہ کے برعکس عوام اور ریاستی ادارے نہ صرف ایک پیج پر ہیں بلکہ متعدد مشکلات اور پراکسیز کے باوجود کاؤنٹر ٹیررازم کے عملی اقدامات بھی موثر انداز میں جاری ہیں۔