یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوا کے سیاحتی مرکز سوات میں نہ صرف امن قائم ہوچکا ہے اور حالات میں تیزی سے بہتری واقع ہورہی ہے بلکہ سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بھی بتدریج شروع ہوچکا ہے۔چند ہفتے قبل پیش آنے والے واقعات نے جہاں عوام کو تشویش میں مبتلا کیا تھا اوریہ واقعات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے تھے جب سوات سمیت دوسرے سیاحتی مراکز دیر اور چترال کو سیلاب کی تباہ کاریوں نے گھیر رکھا تھا اور پاک فوج ریسکیو اور تعمیر نو کے کاموں میں مصروف عمل تھی۔تاہم اس کٹھن مرحلے پر سکیورٹی حکام، سیاسی جماعتوں، میڈیا اور عوام نے درپیش مسائل اور چیلنجز کا جس اتحاد اور ہم آہنگی کے ساتھ اکٹھے ہو کر مقابلہ کیا وہ نہ صرف مثالی تجربہ ثابت ہوا بلکہ ان قوتوں کے عزائم کو بھی ناکام بنایا گیا جو کہ سوات اور ملحقہ اضلاع کو ماضی کی طرح پھر سے بدامنی کی لہر سے دوچار کرنے کی کوشش اور پلاننگ کرچکی تھیں۔سیاسی اور عوامی حلقوں نے سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر حملہ آور قوتوں کو واضح طور پر واضح پیغام دیا کہ وہ سوات کے امن، استحکام اور ترقی کو ماضی کی طرح برباد ہونے نہیں دیں گے۔دوسری طرف اعلی عسکری قیادت نے بھی موثر اور فوری اقدامات کے ذریعے عوام کی حمایت کے تناظر میں درپیش تشویش اور خوف کو دور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صورتحال پر کسی بڑے نقصان کے بغیر قابو پا لیا گیا۔اگر چہ افغانستان کی جاری صورتحال اور پراکسیز کے وسیع تر تناظر میں اب بھی متعدد چیلنجز موجود ہیں اور اس قسم کے مزید واقعات خارج از امکان نہیں ہے تاہم اس حقیقت کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ریاستی پالیسی کافی واضح ہے اور عوام ریاست کی پشت پر کھڑے ہیں۔سوات سب کا ہے اور یہاں ملک کے ہر علاقے کے لوگ نہ صرف ہر برس لاکھوں کی تعداد میں آتے رہتے ہیں بلکہ سب نے یہاں مختلف شعبوں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری بھی کی ہے اس لیے دوسرے علاقوں کے بر عکس جب یہاں کے حالات بوجوہ خراب ہونے لگتے ہیں تو پورا ملک تشویش میں مبتلا ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب کے بار بھی بدامنی کے واقعات کا پورے پاکستان کی سطح پر نوٹس لیا گیا اور اس کے نتیجے میں ریاستی اداروں کو جو مینڈیٹ حاصل ہوا وہ صورت حال کو سمجھنے اور سنبھالنے میں ایک بنیادی فیکٹر ثابت ہوا۔مقامی لوگوں اور میڈیا کے مطابق کاروبار کا سلسلہ پھر سے چل نکلا ہے، عوام کے خوف میں کمی واقع ہوئی ہے اور غیر ملکیوں سمیت ملک کے مختلف علاقوں کے سیاحوں کی دوبارہ آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔جن بعض علاقوں میں سکیورٹی پوائنٹ آف ویو سے انٹرنیٹ وغیرہ کی سروس معطل کی گئی تھی وہ بھی بحال ہوئی ہے جبکہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ خدا نخواستہ اگر پھر سے حالات کو خراب کرنے کی کوئی کوشش کی جاتی ہے تو متعلقہ ریاستی اداروں کے کوئیک رسپانس کے ذریعے اس کا راستہ روک دیا جائے۔دوسری طرف پشاور سمیت صوبے کے متعدد دوسرے ان علاقوں میں بھی فورسز کی ٹارگٹڈ کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے جہاں بعض واقعات سامنے آئے ہیں اس ضمن میں پشاور کے نواحی علاقوں میں بھی متعدد کامیاب کاروائیاں ہوئیں جبکہ کور کمانڈر پشاور نے گزشتہ روز ایک بار پھر وزیرستان کا دورہ کرکے عوام کو یقین دلایا کہ ان کی جان و مال کی حفاظت کی جائے گی اور شدت پسندی کا راستہ روکا جائے گا‘امید کی جارہی ہے کہ صوبے میں ماضی والی صورتحال پیدا نہیں ہوگی تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام، سیاسی قوتیں اور ریاستی ادارے ایک صفحے پر ہو اور ان عناصر پر بھی نظر رکھی جائے جو کہ خطے کے پیچیدہ چیلنجز کی آڑ میں اپنے ایجنڈوں کی تکمیل کے لئے منفی پروپیگنڈا کا سہارا لیکر شکوک و شبہات پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔