اگر ایک طرف پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا ماحول موجود ہے اور خیبر پختونخوا کو مختلف نوعیت کے حملوں اور خطرات کا سامنا ہے تو دوسری طرف عوام امن و امان کے قیام اور سیاسی، سماجی استحکام کیلئے پرامن ریلیوں، مظاہروں اور جرگوں کے ذریعے اپنی موجودگی اور آراء کا کھلے عام اظہار بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں‘ہفتہ رفتہ کے دوران صوبے میں متعدد حملے کئے گئے مگر اس دوران جہاں پشاور یونیورسٹی اور بعض دیگر تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹس تنظیموں نے مشاعروں اور دیگر مباحثوں کا اہتمام کیا تو عین انہی دنوں انہوں نے کتب میلے بھی منعقد کئے اور ثقافتی سرگرمیاں بھی جاری رہیں‘سب سے منفرد ایونٹ طالبات اور خواتین کی سائیکل ریلی کا انعقاد رہا جو کہ پشاور سے شروع ہوکر درہ خیبر تک سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا اس سے قبل اسی روٹ پر کار ریلی یا ریس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا جس میں درجنوں یونیک گاڑیوں نے حصہ لیا۔ ایک ایسی ہی ایک ریلی کا انعقاد سوات میں بھی کیا گیا جو کہ مینگورہ شہر سے نکل کر سیاحتی مرکز ملم جبہ جاکر اختتام پذیر ہوئی‘اس دوران درجنوں غیرملکی سیاحوں نے صوبے کے تاریخی مقامات کی سیر کی اور آثار قدیمہ سے مستفید ہوتے رہے‘امریکی سفیر نے پشاور کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ایک تقریب میں شرکت کرکے صوبے کی تعلیمی ترقی کے لئے قابل ذکر فنڈز دینے کا اعلان کیا اور اس بات کی ستائش کی کہ قبائلی علاقوں سمیت صوبے کے عوام نامساعد حالات کے باوجود بچوں کی تعلیم کے حصول پر غیر معمولی توجہ دے رہے ہیں‘پشاور سمیت متعدد دوسرے شہروں میں متعدد سپورٹس ایونٹس کا اہتمام بھی کیا گیا جن میں طالبات نے بھی حصہ لیا جبکہ ایسی دوسری مثبت سرگرمیاں بھی دیکھنے کو ملیں جس کے باعث تشدد اور دہشت گردی کے واقعات نے معاشرے پر اس طرح کے منفی اثرات مرتب نہیں کئے جو کہ ماضی میں دیکھنے کو ملتے رہے‘سچی اور قابل ستائش بات تو یہ ہے کہ اس صوبے کو جہاں قدرت نے بے پناہ قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے نوازا ہے وہاں اس خطے نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کے دفاع اور استحکام کیلئے بے مثال قربانیاں دیکر ہر سطح پر فرنٹ لائن مورچے کا کردار بخوبی نبھایا ہے اور اس کردار کی کھل کر ستائش ہونی چاہئے‘دوسری طرف ریاست نے بھی عوام کے تحفظ کو مقدم رکھتے ہوئے لاتعداد جوانوں کی قربانیاں دی ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ فریقین بہت برے حالات میں ایکدوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آئے‘اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک بالخصوص پختون خوا کو بدامنی کے علاوہ معاشی مسائل، بے روزگاری،مہنگائی، جرائم اور وسائل کے فقدان جیسے بنیادی چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہے اچھی بات یہ ہے کہ صوبے کے عوام نے کاروانِ زندگی کو رواں دواں رکھا ہے اور اس ضمن میں قابل ستائش کردار ان نوجوانوں اور سٹوڈنٹس کا ہے جو کہ حالات سے مایوس ہونے کی بجائے آگے بڑھنے کا عزم لیکر مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں‘ضرورت اس بات کی ہے کہ منفی رحجانات اور اقدامات کی بجائے اس نسل کی مثبت سرگرمیوں کی ہر سطح پر سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جائے اور اس نوعیت کے ایونٹس اور مصروفیات کی سرپرستی کو ترجیحات میں شامل کیا جائے‘یہ مٹی بڑی زرخیز ہے اور شاید اسی وجہ سے یہ زیادہ تر ادوار کے دوران حالت جنگ میں رہی تاہم اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتاکہ یہاں کے عوام میں نامساعد حالات کے تناظر میں زندہ رہنے اور اچھی زندگی گزارنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے اور ان کو مختلف قسم کے چیلنجز سے نمٹنے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔