ہم نے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران سماج میں نفرت، عدم برداشت اور عدم توازن کی جو آبیاری کی ہے اس کے نتائج ہمارا معاشرہ بدترین قسم کی بے چینی اور آنارکی کی صورت میں بھگت رہا ہے۔ماہرین کے مطابق جتنا عرصہ اس صورتحال کو بنانے اور بننے میں لگا ہے اتنا ہی عرصہ حالات کو نارمل بنانے میں لگے گا اور وہ بھی تب جب تمام سٹیک ہولڈرز اس صورتحال کا ہمہ گیر ادراک کرتے ہوئے ایک مشن کے طور پر اپنا کردار ادا کریں۔ہر طبقہ اپنی بات منوانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار نظر آرہا ہے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ نام نہاد سوشل میڈیا نے دوسری اقوام کے برعکس ہمارے ہاں معلومات کی حصول کی بجائے نفرتیں پھیلانے کی فیکٹریوں کی شکل اختیار کرلی ہے۔ہر کوئی سیاست دان بھی ہے، تجزیہ کار بھی اور ہر کام کا ماہر بھی۔اگر کوئی فٹ نہیں ہے تو صرف اس کام کے لئے جو کہ اس کے ذمے ہوتا ہے۔ففتھ جنریشن وار کے تجربات نے ایک بے لگام اور ناراض نسل کی میدان میں اُتارا ہے بلکہ اس ٹرینڈ نے ہر عمر، ہر طبقے اور ہر نظریہ کے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔اظہار رائے کے نام پر کسی کی بھی عزت اُچھالنے اور اپنی بات منوانے کی خواہش، کوشش نے سب اخلاقی اقدار، حدود وقیود اور سماجی روایات کا جنازہ نکال دیا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ نہ تو کسی اور کی بات سنی جارہی ہے نہ سمجھی جارہی ہے۔ ہر کوئی سوچے سمجھے صرف بول رہا ہے بلکہ چیخ رہا ہے۔قابل ذکر بندہ اس پورے تھیٹر میں وہ ہے جو سب سے زیادہ بد کلام اور بے لگام ہو۔ اس کو شاباشی بھی ملتی ہے اور توجہ بھی اور اسی بات نے ہماری تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کو شدت پسند اور اذیت پسند بنادیا ہے۔وقت آگیا ہے کہ اجتماعی طور پر اظہارِ رائے کی حدود وقیود کا از سر نو سیاسی اور سماجی سطح پر نوٹس لیکر اس ملک اور معاشرے کو خانہ جنگی کی صورتحال سے بچانے کی کوششیں کی جائیں ورنہ جس طوفان بدتمیزی نے پورے معاشرے اور نظام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس سے کوئی نہیں بچے گا۔اس تمام صورتحال سے نکلنے کے لئے لازمی ہے کہ ریاستی سطح پر نصاب سے لیکر قومی بیانیہ تک کے تمام ایشوز کا ناقدانہ جائزہ لیکر معتدل مزاجی پر مشتمل معاشرے کے قیام کے امکانات ڈھونڈے جائیں اور سوسائٹی کو مزید سماجی شدت پسندی سے بچایا جائے۔ اس ضمن میں والدین، اساتذہ اور علماء کا بھی بنیادی کردار بنتا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ نوجوانوں میں بے چینی اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے اور جس انداز میں اخلاقی اقدار کو روزانہ کی بنیاد پر روندا جارہا ہے وہ پورے سماج کے لئے بہت خطرناک ہے۔تعلیمی اداروں میں تصادم اور کشیدگی کے مسلسل واقعات اور ان کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوششوں نے سٹوڈنٹس کو مزید مشکلات اور چیلنجز سے دوچار کرکے رکھدیا ہے،مہنگی تعلیم، بے روزگاری اور معاشی مسائل نے والدین کو پریشان کرنے کے علاوہ نوجوان نسل کو بھی عدم تحفظ سے دوچار کردیا ہے جبکہ جدید ٹیکنالوجی نے ان کی خواہشات اور ضروریات کو مزید بڑھاکر مزید پیچیدگیوں کو جنم دیا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اجتماعی کوششوں اور ٹھوس اقدامات کے ذریعے اپنی ائندہ کی نسلوں کو مثبت انداز میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کئے جائیں اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے ان کو بچانے کے راستے ڈھونڈے جائیں۔