یہ بات بہت افسوسناک بلکہ خطرناک ہے کہ پاکستان میں جاری سیاسی کشیدگی نہ صرف دن بدن بڑھتی جارہی ہے بلکہ ہر گزرے دن کے ساتھ اس میں مزید تلخی کا اضافہ ہورہا ہے۔سیاسی جماعتوں نے سیاسی اختلافات کو ذاتیات میں تبدیل کرکے پوری قوم کو ہر سطح پر تقسیم کرکے مختلف قسم کے سنگین مسائل سے دوچار پاکستان کی معاشرت کو تلخ کلامی اور بد زبانی سے دوچار کردیا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی مشکل ہوتی جارہی ہے۔عام آدمی کو بوجوہ لگ یہ رہا ہے کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اس کی مشکلات کا کوئی ادراک نہیں ہے بلکہ ہر کوئی اقتدار کے حصول کی کوشش اور دوڑ میں لگا ہوا ہے۔اس تلخ حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر ایک طرف عوام کی اکثریت کا سیاستدانوں اور جمہوریت سے اعتماد اٹھتا دکھائی دے رہا ہے تو دوسری جانب پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی موجودہ حکومت جمہوریت کے استحکام اور عوامی مسائل کے حل میں ناکام رہی ہے۔دوسری طرف عمران خان مزاحمت پر مبنی پالیسی سے باز نہیں آرہے اور وہ نہ صرف یہ کہ نت نئے تجربات کررہے ہیں بلکہ اس کے ردعمل میں وفاقی حکومت میں شامل پارٹیوں کی تمام توجہ بھی محض اس بات اور کوشش پر مرکوز ہے کہ کیسے عمران خان کو کاؤنٹر کیا جائے۔یہ بات بھی کافی تشویشناک ہے کہ قومی سلامتی کے اداروں سمیت اعلی عدلیہ بھی اس سیاسی کشیدگی کے باعث سنگین دباؤکی زد میں ہے اور اس تمام تصادم میں ماضی کے بعض تلخ واقعات بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہے۔اگر ایک طرف پاکستان کو اس کشیدگی اور عدم استحکام کے باعث سیاسی تلخی کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہمیں بدترین قسم کی بدامنی اور حملوں کے علاوہ تاریخ کے سب سے بڑے معاشی بحران کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہماری خارجہ پالیسی بوجوہ یا تو واضح نہیں ہے یا ابہام سے دوچار ہے۔یہاں تک کہ افغانستان کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات درست سمت میں نہیں جارہے۔ہم اب بھی یہ طے نہیں کر پائے کہ امریکہ اور چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کار کی نوعیت کیا ہونی چاہئے اور ہم ان دو اہم ممالک کے ساتھ توازن کس طرح قائم رکھ سکتے ہیں۔وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلقات اور معاملات بھی درست نہیں ہیں اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ 2010 کے بعد ہم این ایف سی ایوارڈ کا اجراء نہ کرسکے۔ان تمام مسائل اور دیگر درپیش چیلنجز سے ہٹ کر سب سے افسوسناک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ سیاسی سطح پر جاری کشیدگی اور تلخی میں کمی لانے کے درکار اقدامات نظر نہیں آرہے اور نہ ہی ملکی مسائل کو سامنے رکھ کر مفاہمت یا مصالحت کی کوئی عملی کوشش دکھائی دے رہی ہے۔شاید اسی طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ بعض سنجیدہ حلقے پاکستان کے اندر ایک میثاق اخلاقیات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ پاکستانی معاشرے کو مذید تقسیم اور برباد ہونے سے بچانے کیلئے اس نوعیت کی عملی کوشش بہت لازمی ہے۔