وزیر اعلیٰ کے پی محمود خان نے وفاقی حکومت پر پھر سے متعصبانہ رویہ اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی تک صوبے کو پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں ایک پیسہ نہیں دیا گیا۔ان کے مطابق اس سے قبل وفاقی حکومت نے ترقیاتی پروگرام سے پختون خوا کے متعدد منصوبے نکالے جبکہ ان کے بقول ضم شدہ اضلاع کے فنڈز بھی جاری نہیں کئے جارہے تاکہ صوبے کو اقتصادی بدحالی سے دوچار کیا جائے۔دوسری طرف صوبے کی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نہ صرف یہ کہ غلط بیانی سے کام لے رہی ہے بلکہ اس حکومت نے اوور ڈرافٹنگ سمیت ریکارڈ قرضے لے رکھے ہیں اور یہ کہ صوبہ ڈیفالٹ کی صورتحال سے دوچار ہے۔کون درست اور کون غلط کہہ رہا ہے اس پر بحث کی بجائے تلخ حقیقت یہ ہے کہ صوبے کو واقعتا معاشی اور انتظامی مسائل کا سامنا ہے اور اس جنگ زدہ صوبے کو دونوں حکومتوں نے اس بحران اور چیلنجز سے نکالنا ہے۔ایسا کرنا
اس حوالے سے بھی لازمی ہے کہ حال ہی میں صوبے کے متعدد اضلاع سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار ہوئے ہیں اور عوام کو کوئی بھی یہ نہیں بتا رہا کہ نقصان کتنا ہوا ہے اور تعمیر نو کے لیے فنڈز کہاں سے آئیں گے۔دوسری طرف اس بات سے بھی دونوں حکومتیں لاتعلق دکھائی دے رہی ہیں کہ پسماندگی سے دوچار جنگ زدہ قبائلی علاقوں کی انفراسٹرکچر اور تعمیر نو کی ذمہ داریاں کون پورے کریگا اور اوپر سے امن و امان کی صورتحال پر بھی عوام کی جانب سے نہ صرف سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر عوام پرامن احتجاج بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فاٹا انضمام کے حق میں جو پارٹیاں پیش پیش تھیں ان میں ن لیگ اور تحریک انصاف سرفہرت تھیں۔ چونکہ ان میں ایک مرکز اور دوسری صوبے میں برسر اقتدار ہیں اس لیے اقتصادی اور انتظامی امور کو باہمی مشاورت اور تعاون سے نمٹنے کی ذمہ داری بھی انہی پارٹیوں پر عائد ہوتی ہے۔پختون خوا خصوصا ًقبائلی علاقوں اور ملاکنڈ ڈویژن کے عوام نے امن کے لئے بے شمار قربانیاں دی ہیں اب ان علاقوں میں پھر سے اگر بے چینی اور عدم تحفظ کا تاثر بنتا ہے تو اس کا فوری نوٹس اس لیے لینا چاہئے کہ ان علاقوں کے امن اور استحکام سے پورے ملک کا استحکام جڑا ہوا ہے۔مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے سیاسی اختلافات اگر جنگ زدہ صوبے پر اثر انداز ہورہے ہیں اور دونوں پارٹیوں کے صوبائی
قائدین سیاسی پوائنٹ سکورنگ یا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے صوبے کے اجتماعی مفادات کو داؤ پر لگارہے ہیں تو یہ بہت بڑی زیادتی کے علاوہ ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگانے والا رویہ بھی ہے کیونکہ یہ نہ صرف دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن صوبہ رہا ہے بلکہ درپیش چیلنجز کے تناظر میں بھی یہ ایک خطرناک طرزِ عمل ثابت ہوسکتا ہے۔وزیر اعلیٰ نے کچھ عرصہ قبل ان معاملات پر کے پی اسمبلی کے پارلیمانی نمائندوں کے ساتھ جو میٹنگ کی تھی وہ ایک درست اقدام تھا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبے کے حقوق کے تحفظ کیلئے آگے بڑھا جائے اور سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال ڈال کر وفاقی حکومت کے ساتھ مفاہمت کا ماحول بنایا جائے۔ اس ضمن میں پہل صوبائی حکومت نے کرنی ہے تاہم پیپلز پارٹی، اے این پی اور جے یو آئی بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتی ہیں کیونکہ یہ پارٹیاں وفاقی حکومت میں شامل ہیں۔