گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ

 پہلے تو گھروں میں شادیوں کی تقریبات مہینہ پہلے سے شروع ہو جاتی تھیں۔مگر اب تو کسی کے پاس کسی کے ولیمے میں جا کر تیار کھانا کھانے کے لئے بھی وقت نہیں۔اب شادی کے سامان کی ہر چیز بازار سے تیار مل جاتی ہے۔ جیب ہلکی کرو تو شادی ہال میں فی کس کے حساب سے کھانا تیار مل جاتا ہے۔پہلے تو جس گھر میں شادی ہوتی وہاں بیٹھک میں دوست یاروں کا کم از کم ایک ماہ پہلے ڈیرہ ہو جاتا۔اندر سے چائے قہوے کی چینکیں بن بن کر تیار آ رہی ہیں۔ایک طرف دوستوں کی منڈلی کیرم بورڈ لُڈو یا ا س طرح کے دوسرے کھیل کھیل رہے ہوتے اور ایک طرف چار دوست شادی کے دنوں میں استعمال ہونے والی جھنڈیاں شریس کے ساتھ بنا کر ڈوری پر لگا رہے ہوتے۔دو ایک دن بعد ایک دوسرے سے پوچھتے کتنے ہزار ہو گئی ہیں۔ جواب میں اچھی خاصی تعدادکا پتا معلوم ہوتا تو بھی ان کی تسلی نہ ہوتی اور دوست کہتے ابھی اور بھی بنانی ہیں۔پھر شادی والی گلی کے باہر ایک بڑا سا دروازہ بنایا جاتا۔جس کو کھجور کے درختوں کی گھنی شاخوں اور کبھی لوہے کی جالی کی مہراب رکھ کر سجایا جاتا۔ اس جالی پر رنگین کپڑوں کے غلاف چڑھائے جاتے۔ پھر یہی دوست مل کر مہندی نکالتے۔بڑے ڈھول کا زمانہ نہ تھا۔ ڈھولک والے کو بلاتے وہ گلے میں ڈھولکی لٹکا کر مہندی کے جلوس میں ان کے ساتھ جاتا۔وہ گانے جو اس وقت مقبول عام کی سند پا چکے ہوتے۔شادی بیاہ کے گیتوں میں سے انتخاب کیا جاتا۔پھرمزید پرانے بلیک اینڈ وائٹ کے زمانوں کے لوک گیت اور فلمی گانے گائے جاتے۔ دوست یار جوق در جوق اور شوق سے پھر جوک کرتے ہوئے ناچتے اور تھکتے نہیں تھے۔ چوک ناصر خان سے نکل کر یہ جلوس گھنٹہ گھر تک سبزی منڈی سے ہوتا ہوا یکہ توت منڈی بیری کا چکر لگاتا۔ لڑیاں جلانے کے لئے بیٹری درکار ہوتی تو کسی ہتھ ریڑھی پر رکھ کر ساتھ ساتھ یہ بیٹری بھی جاتی۔کیونکہ ریڑھی پر روشن کرنے والی بتیاں جلانے کو یہ ہتھ گاڑی ساتھ جاتی۔کیونکہ اس پر چوک یادگار کا ماڈل رکھا ہوتا۔ یہاں دوستوں یاروں کے مذاق اپنے عروج پر ہوتے اور پھر گاہے اتنے بھونڈے ہوتے کہ اب یاد آتا ہے تو لاج آنے لگتی ہے۔ وقت جب بدلا تو وہی موتیوں کی مالا تڑی بڑی ہوگئی ہے۔اب تو بہت گہرا دوست بھی ہو تو دوستیاں نبھانے اور اس کا مظاہرہ کرنے کاموقع ہی کسی کے پاس نہیں۔پھراگر موقع ہو تو کسی کے پاس اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر شادی میں صرف شرکت کرنا ہی مشکوک ہو چکاہے۔کیونکہ اس دن بیگم کے خاندان میں کوئی اہم تقریب رونما ہورہی ہوتی ہے۔ایسے میں خاتونِ خانہ کی ناراضی مول لینا ہر طرح نقصان دہ ہوتا ہے۔بیوی بچوں کو ساتھ لیا اور گاڑی نکالی اور وہاں کی منگنی کی تقریب میں جا دھمکے۔سو جتنا مزہ اپنے سسرال کی تقریبات میں جانے میں آتا ہے وہ مزا خود اپنے ذاتی رشتہ داروں کے ہاں نہیں ہوتا۔خیر یہ تو زمانے زمانے کی بات ہے کہ یہ وقت کا بدلاؤ اور پھیلاؤ ترتیب پاتا ہے۔میں نے تو جو دیکھا جو محسوس کیا وہ بیان میں لایا۔لیکن ایسابھی ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ شہروں کی جگمگاہٹ اور جلتی بجھتی روشنیوں کے بیچ تو یہ تبدیلیاں آئی ہیں۔مگر دور دراز کے گاؤں میں اس قسم کی شادیاں اب بھی ہیں۔ مگر شہروں میں جو تبدیلیاں آتی ہیں ان کے اثرات اب گاؤں تک بھی وائرس کی صورت میں وبا بن کر موبائل کے ذریعے پہنچ گئے ہیں۔اب وہاں بھی ہر چند کہ شادیوں کا رواج وہی پرانا ہے مگر وہاں جدید طرز کی شادیوں کی مکسنگ ضرور ہوئی ہے جس کا گاہے گاہے مظاہرہ ان کی شادیوں میں نظر آ جاتا ہے۔گاؤں والے بھی حالانکہ بھرپوراوپن ایئر ہوتا ہے مگر شادی کے لئے گیدرنگ ہالوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔مگر کیا بات وہ پرانے زمانے کی شادیوں کی‘اب تو خیر ہر ایک کے پاس موبائل کیمرہ موجودہے پرانے ویڈیو کیسٹ دیکھ کرسب سے پہلے جو دل ناراض ہوتا ہے وہ اپنی جوانی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو بہاتا ہے اور اس پر بھی دل آٹھ آٹھ آنسو روتا ہے کہ ا س کیسٹ میں تقریباً پچیس فیصد رشتہ دار دوست یار وغیرہ زندہ ہوتے ہیں باقی کے تو مدتوں پہلے دنیا چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔