سیلاب متاثرین کی امداد و بحالی کے لئے پاکستان اور اَقوام متحدہ نے مشترکہ طور پر ’81 کروڑ 60 لاکھ (816ملین) ڈالر‘ اِمداد کی درخواست کی ہے۔ چار ستمبر کے روز‘ جنیوا میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے سیلاب متاثرین کے لئے ’فوری عالمی مدد‘ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان تباہ کن موسمیاتی تبدیلیوں کے دور سے گزر رہا ہے اور حالیہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی جیسی بڑی ذمہ داری سے تن تنہا عہدہ برآء نہیں ہو سکتا۔“ اُنہوں نے توجہ دلائی کہ ”دنیا کو تیزی سے گلوبل وارمنگ اور اِس سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا ہے اور ہر ملک پر واضح ہوتا جا رہا ہے کہ یہ کرہئ ارض پر موسمیاتی تبدیلیاں کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور اِس سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر اتحادواتفاق کا مظاہرہ ہونا چاہئے۔ اقوام متحدہ اور پاکستان کی حکومت نے سیلاب زدگان کو فوری امداد فراہم کرنے کے لئے 81کروڑ ڈالر سے زائد کی نظرثانی شدہ اپیل جاری کی ہے۔
اِس سے قبل اقوام متحدہ کی جانب سے (تیس اگست کے روز) پاکستان کے لئے سولہ کروڑ ڈالر کی فوری امداد کی درخواسست کی گئی تھی جسے بعدازاں سیلاب سے ہوئے نقصانات سامنے آنے کے بعد کافی نہیں سمجھا جا رہا۔ اسی لئے گزشتہ روز ایک نظرثانی شدہ انسانی اپیل کا آغاز کیا گیا۔ حالیہ تباہ کن سیلابوں سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جو اِس سے بہت زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں تباہ کن سیلابوں سے 3 کروڑ 30 لاکھ (33ملین) سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ تقریباً سترہ سو افراد سیلاب میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جنہیں موسمیاتی تبدیلی کے براہ راست نتیجہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس دوران ’ڈبلیو ایچ او‘ کے سربراہ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ”پاکستان صحت عامہ کی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ جب کوئی ملک جسے پہلے ہی معاشی پریشانیاں لاحق ہوں اگر اُس کے 3 کروڑ 30 لاکھ اچانک بے گھر ہو جائیں اور اُس کی ایک تہائی زمین بھی پانی میں ڈوبی ہوئی ہو تو اِس سے مصیبت و مشکل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ سیلاب زدگان کی مدد کے لئے صرف پاکستان ہی کے نہیں بلکہ عالمی امدادی اداروں اور عالمی ذمہ داریوں کا احساس کرنے والے ممالک کے وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ سیلاب کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والوں کو موسم سرما کی آمد نے پریشان کر رکھا ہے اور اندیشہ ہے کہ سردی میں اِن ’آئی ڈی پیز‘ کا بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔ اب تک قریب چھ لاکھ افراد کو پناہ گاہیں فراہم کی گئی ہیں جبکہ 79 لاکھ افراد کو اب بھی خشک زمین اور پناہ کی تلاش ہے اور یہ محض اعدادوشمار نہیں بلکہ انسانی مصائب و مشکلات ہیں۔ یہ لاکھوں لوگ زندہ رہنے کے لئے وسائل کی تلاش اور حکومتی مدد کے انتظار میں ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں پہلے ہی پھیل چکی ہیں اور خدشہ ہے کہ ان علاقوں میں تمام نوزائیدہ بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور دیگر مسائل کی وجہ سے زندہ نہیں رہ سکیں گے۔
ملیریا‘ ڈینگی‘ سانپ کے کاٹنے اور دیگر بیماریاں سیلاب متاثرین کی زندگی کو انتہائی مشکل بنا رہی ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے آب و ہوا کی تباہی ایسی چیز ہے جو دنیا نے اِس سے پہلے کبھی بھی اِس قدر شدید حالت میں نہیں دیکھی۔ لاکھوں کی تعداد میں ایسے سیلاب متاثرین ہیں کہ جنہیں اپنے گھر دوبارہ تعمیر ہونے تک قیام گاہوں کی ضرورت ہے۔ ان سیلابوں کی وجہ سے فصلیں تباہ اور مال مویشی مر گئے ہیں جبکہ ملک کو غذائی عدم تحفظ اور بحران کا بھی سامنا ہے۔ زرعی معیشت و معاشرت میں مال مویشیوں کی موت کا مطلب زیادہ تر لوگوں کی برسہا برس کی جمع پونجی اور آمدنی سے دائمی محرومی ہوتی ہے یقینا عالمی برادری کو مشکل کی اِس گھڑی میں بچاؤ کے لئے آگے آنا چاہئے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت ظہور پذیر تباہی ہماری اپنی نہیں ہے۔