گزشتہ روزپانچ اکتوبر کو دنیا بھر میں عالمی یوم اساتذہ منایا گیا۔ایک دن تاخیر سے سہی تاہم اس موقع پر مناسب ہوگا کہ ہم اپنے بہترین اساتذہ کا ذکر کرلیں اور ان اساتذہ کا بھی جو ہمارے اساتذہ تو نہیں تھے مگر ان کی محنت، دیانت داری اور شرافت نے ہمیں متاثر کیا۔قرآن مجید ہم نے اپنے والد مرحوم سے پڑھا۔ یعنی وہ ہمارے پہلے استاد تھے۔ اللہ تعالی ان کو اجر عظیم سے نواز دے اور انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے۔بچپن میں کاٹلنگ کے وزیر استاد مرحوم سے چند دینی کتب پڑھیں اور حافظ سلطان محمود صاحب مرحوم نے چند قرآنی سورتیں حفظ کروائیں۔ ان کے ساتھ دینی محافل میں نعت خوانی کیلئے بھی جاتے تھے۔ان کی نگرانی، مدد اور اپنائیت نہ ہوتی تو ہماری زندگی کا رخ یقینا مختلف ہوتا۔ خدا انہیں غریق رحمت فرمائے اور انہیں بہترین اجر سے نواز دے۔اپنے گاؤں کے سکول میں اپنے مرحوم چچا روئید خان کے ساتھ جاتے تھے تو وہاں اپنے چچا اور کاٹلنگ کے نور محمد صاحب کی طرز تدریس اور مسلسل محنت سے متاثر ہوئے۔
یہاں ہمارے گاؤں کے استاد عبد الرحمن صاحب مرحوم کا بھی بتاتا چلوں جو صاف شفاف کپڑے پہنے روز وقت پر سکول آتے جاتے دکھائی دیتے تھے۔ وہ طلبا کے ساتھ بڑی محنت کرتے تھے۔ ان کی بڑے رعب و دبدبے والی شخصیت تھی۔پھر اپنے ننھیال کے گاں مردان محب بانڈہ کے سکول میں پڑھنے گیا تو وہاں محترم نظر بیگ مرحوم اور روشن استاد مرحوم وغیرہ کے انداز گفتگو، محنت، طرز تدریس اور دیانت داری کے گرویدہ ہوگئے۔وہاں پرائمری مکمل کرکے گاؤں واپس آگئے تو گورنمنٹ ہائی سکول کاٹلنگ میں پانچویں میں داخلہ لے لیا۔محترم جعفر حسین صاحب مرحوم ہماری جماعت کے انچارج تھے اور انہوں نے ہمیں اردو خوش خطی اور گرائمر بڑے شاندار طریقے سے سکھائے۔
کاٹلنگ ہائی سکول میں سب اساتذہ، انتہائی مشفق، باکردار، محنتی اور دیانت دار پائے گئے مگر بابوزئی کے جمیل صاحب، کاٹلنگ کے سلطان استاد صاحب، شکرے بابا کے رفیق صاحب، مرحوم صادق روز صاحب، شموزئی کے ہنس مکھ وائس پرنسپل صاحب(نام یاد نہیں آرہا)، کٹی گڑھی کے مرحوم خان اکبر صاحب، کاٹلنگ کے مرحوم عارف اللہ صاحب، مرحوم سرن خان صاحب، مرحوم وسیم صاحب، مرحوم امرود خان صاحب، انزرگی کاٹلنگ کے عبدالرازق صاحب، بابوزئی کے ایک مرحوم استاد (نام یاد نہیں آرہا)اور کوٹکی کے فضل اکرم صاحب وغیرہم کی انتھک محنت اور داینت داری نے حد درجہ متاثر کیا۔مرحوم امرود خان صاحب اور عبدالرازق صاحب نے انگریزی زبان سے تو محترم وسیم صاحب مرحوم نے اردو سے واقفیت اور عشق بڑھایا۔
اول الذکر اساتذہ نے ہماری خوشخطی اور خوداعتمادی بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔اس سکول کے پرنسپل محترم چین بادشاہ صاحب مرحوم، فقیر محمد صاحب مرحوم اور مرحو صادق روز صاحب بڑی بارعب شخصیت اور بلند کردار والے بندے تھے۔ وہ کئی بار راؤنڈ پر نکلتے تھے اور کلاسوں کی مسلسل نگرانی کرتے تھے۔ لوند خوڑ کے ہمارے ایک پرنسپل جن سے دو سال پہلے ملاقات ہوئی، بھی انتہائی دیانت داری سے فرائض انجام دیتے تھے۔ یہ اسی کی دہائی تھی۔ وہ سائیکل پر لوند خوڑ سے کئی میل فاصلہ طے کرکے روز صبح اسمبلی میں باقاعدگی سے حاضر ہوتے تھے۔ انہوں نے مشورہ مانگا تو کہا کہ وقت کی پابندی، دیانت داری اور سخت محنت کو شعار بنائیں اچھے پرنسپل استاد بن پائیں گے۔ چچا مرحوم کا جب تبادلہ باجوڑ ہوگیا تو کئی د فعہ ہم بھی ان کے ہم راہ ان کے سکول گئے۔
وہاں لوند خوڑ کے ایک استاد وزیر صاحب مرحوم، گمبت کے ایک استاد فدا محمدصاحب اور لوند خوڑ ہی کے باچا استاد کی محنت، شرافت اور دیانت داری نے بھی خاصا متاثر کیا تھا۔کالج میں داخلہ لیا تو وہاں محترم میاں اکبر صاحب مرحوم اور نعیم صاحب ہمارے انگریزی کے پروفیسر تھے۔ وہ محنتی اور دیانت دار انسان تھے۔تاریخ کے ہمارے پروفیسر مشہور طارق صاحب مرحوم تھے۔ وہ چلتی پھرتی تاریخ تھے اور ہر سوال کا بڑا زبردست مختصر جواب دیتے تھے۔ اکنامکس کے انور صاحب نے بھی متاثر کیا۔وہ اساتذہ جو ہمارے استاد تو نہیں رہے لیکن ان کی شخصیت، انداز گفتگو، وضع قطع، شرافت اور فرض شناسی نے متاثر کیا ہے ان میں گوجر گڑھی کے ملک لیث محمد صاحب، پیلاگی کاٹلنگ کے فضل الدیان صاحب، کوٹکی کے زاہد صاحب، بابوزئی کے مشفق الرحمن صاحب مرحوم، مردان کے پرنسل محمد طارق صاحب، پرنسپل اشرف علی صاحب، گجرات سے اسلامیات کے ماہر مضمون محمد ابراہیم صاحب، ڈیرہ اسماعیل خان کے مشفق اور دیانت دار ماہر مضمون محمود صاحب، صوابی کے ہنس مکھ اور ہر دم تیار سنیئر فزیکل ایجوکیشن انسٹرکٹر محترم فدا محمد صاحب، پرائمری سکول کے اپنے ساتھی نیک ہاد صاحب، سبزعلی صاحب، لکپانی کے اسم خان صاحب، نور رحمن صاحب اور کاٹلنگ کے نذیر استاد مرحوم شامل ہیں۔
ایف جی آئی میں ملازمت کے دوران بھی انتہاء فرض شناس، مخلص اور باکردار اساتذہ دیکھنے کو ملے جن میں نوشہرہ کے محترم عثمان صاحب، چارسدہ کے محترم خالد صاحب، مانکی شریف کے محترم جلال صاحب، صوابی کے محترم اعزاز علی صاحب اور چارسدہ کے نثار علی خان صاحب وغیرہ شامل ہیں۔ چند خواتین اساتذہ کی محنت اور فرض شناسی نے بھی متاثر کیا۔ اساتذہ معاشرے کے معمار ہیں۔ یہ ہمارے تعلیمی سلسلے کی بنیادی کڑی ہیں۔ پرنسپل اور اساتذہ ایک ساتھ ہی ترقی کرتے یا ناکام ہوتے ہیں۔ کامیابی کیلئے دونوں کے درمیان باہمی اعتماد اور مسلسل تعاون لازمی ہے۔ ان کا پرخلوص اور پرجوش تعاون نہ ہو تو کوئی پرنسپل ادارے میں بہتری لانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ان کی عزت، سہولت اور مدد کیلئے حکومت اور معاشرے کو تمام وسائل بروئے کار لانے چاہئیں۔ یہ مالی طور پر آسودہ اور ذہنی طور پر مطمئن ہوں گے تو قوم کے مستقبل کے معماروں کی بہترین تربیت کرسکیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر درس و تدریس کے شعبے کو ہم خاطر خواہ توجہ دیں تو اس سے زندگی کے تمام شعبوں پر مثبت اثرات جلد محسوس ہوں گے اور ملکی ترقی کی رفتار تیز ہوگی۔