مصنوعی پن

یہ شہر ہمارے لئے اجنبی ہو رہا ہے۔اپنے شہرکی وہ سوندھی سوندھی خوشبو اب محسوس ہونا کم ہوگئی ہے۔لگتا ہے کہ ہم کوکسی خوبصورت اور سونے کے پنجرے میں پنچھیوں کی طرح قید کردیاگیا ہے کہ شہر خوبصورتی کو بزور انجوائے کریں۔ مگر کہیں کہیں تو اوپن ایئر کا جو اپنا حسن ہوتا ہے وہ بربادی کا شکار ہے۔کہیں کہیں کھلی فضا بہت اچھی لگتی ہے۔”اقبال کا شعر ہے کہ ”نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشہ ئ فراغت۔ یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ“۔پھر ایسا ہوتا ہے کہ اوپن ایئر کی ٹھنڈک کا مزا لینے کے لئے قافلے گاڑیوں میں لد کر بیرون شہر روانہ ہوتے ہیں۔جہاں چلے گئے ان کو پھرکوئی گائیڈ نہیں کرے گا کہ فلاں علاقے کی سیر کرنا آپ کے لئے نہایت موزوں ہوگا۔ اوپن ایئر انجوائے کرنے کو پھر شہری کہیں سے کہیں نکل جاتے ہیں۔جہاں تک بل بورڈ کی بات ہے وہ تو ترقی کی علامت اس لئے ہیں کہ ہمارے ہاں جب جب شہر ترقی کی طرف جاتا ہے تو شہر کی اس حبس میں اور بھی اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔بل بورڈ اتنے بڑے ہیں کہ خود جس عمارت پر لٹکائے جاتے ہیں وہاں عمارت ہی اس کے پیچھے چُھپ جاتی ہے۔

شہر میں جہاں صبح سویرے کام کاج کو آنے والے دکاندار اپنی دکانیں کھولنے کو داخل ہوتے ہیں او رپھر سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے اہلکار کا داخلہ بھی شہر میں ہوتا ہے۔وہاں صبح سویرے شہر میں داخل ہونے والی تازہ ہوا ان بل بورڈز کی وجہ سے قید و بند کا شکار ہو جاتی ہے۔نتیجہ یہ کہ صبح سمے کی ٹھنڈک آہستہ آہستہ خراب ہو رہی ہے۔ مانا کہ ارضِ وطن کے دوسرے ترقی کرجانے والے شہروں میں بھی بل بورڈ لاتعداد میں نصب کئے گئے ہیں۔مگر اس کا بھی انھوں نے کچھ حساب رکھا ہوتا ہے۔مگر ہمارے شہر میں جو اب ان بورڈز کی ابتدا ہوئی ہے تو اس کا آغاز بہت بھونڈے انداز سے ہوا ہے۔پھر نہ تو کسی سمت کا احساس ہے اور نہ ہوا کے لئے رکاوٹ بننے کے نقصان کا اندازہ ہے۔مانا کہ یہ خوبصورتی کی علامت ہے اور اچھا لگتا ہے کہ ہمارا شہر بھی دوسرے شہروں کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گیا ہے۔مگر ان بل بورڈ کے ساتھ جہاں خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے وہاں شہر کے حسن کو کہیں کہیں گرہن لگ جاتا ہے۔جس کو ہر دیکھنے والی آنکھ محسوس نہیں کرسکتی۔اصل خوبصورتی تو سڑکوں کی ہے جو ماند پڑچکی ہے۔ 

ہر جگہ دھول دھبے گرد وغبار چھایا ہواہے۔سڑکوں کو ٹریکٹرٹرالیاں تباہ کر رہی ہیں۔ کہیں ٹرالے گھومتے پھرتے ہیں اور ان میں حد سے زیادہ لادے گئے بوجھ کی وجہ سے سڑک خرابہونے لگتی ہے۔جہاں بارش کا پانی رک جائے وہاں سو سو چھید پڑ جاتے ہیں اور کچھ دنوں کے بعد سڑکو ں پروہی سوراخ کھڈوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔گدھا گاڑیاں ہیں یا لوڈر ہیں سریالٹکا کر لے جارہے ہیں جس کی وجہ سے سڑک چھیل رہے ہیں۔یہ تو اچھے لوگوں کی علامات نہیں ہیں۔اصل خوبصورتی کو دل کھول کر خراب کیا جاتا ہے۔آگے ہی شہر میں حبس دم کا ماحول ہے۔آبادی زیادہ ہے او رپھر اور بھی بہتات کا شکار ہے پھر اس کے علاوہ یہ ماحول کس کس طرح سے خراب ہو رہا ہے یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ شور ہے اور خالص ہوا میں دھوئیں کی ملاوٹ ہے۔ایسے میں اگر کوئی شہر میں رہ کر شہر سے باہر کی کھلی آب وہوا میں رہنے کی خواہش کرے تو کیابرا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شہر کے ماحول میں ایک مصنوعی پن وجود پا رہا ہے جس سے عنقریب ہمارے شہری بیزار ہو جائیں گے۔ جو بیزار ہیں وہ سمجھو اپنی مجبوریوں کے قیدی ہیں۔مگر جن کوخدا کا دیا ہے وہ شہر سے دور بستیاں بسا رہے ہیں۔

وہ اگر شہر چھوڑ کر گاؤں کی کھلی فضا میں شفٹ ہو جاتے ہیں تو وہ بھی اپنی سی مجبوریوں کے قیدی ہوتے ہیں ”نہ جانے کون سی مجبوریوں کا قیدی ہو۔وہ ساتھ چھوڑ گیا ہے تو بے وفا نہ کہو“۔پھر ہم شکایت کرتے ہیں کہ ”وہ صورتیں الہٰی کس دیس بستیاں ہیں۔ وہ جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں“کچھ بل بورڈز ایسے مقامات پر لگائے جاتے ہیں۔ جن کو آئے دن سرکاری اہل کاروں کی طرف سے اتارا جا رہا ہوتا ہے۔ یہ شہر کی خوبصورتی کو خراب کرنے کا کارن بنتے ہیں۔بعض پوسٹر بہت اونچے لگائے جاتے ہیں‘مگر ان غیر قانونی پوسٹروں کو اتارنے کے لئے قانون کے لمبے ہاتھ بہت آسانی سے یہاں چوٹی پر پہنچ کر ان کو کھسوٹ کر نوچ کر اتار لیتے ہیں۔

تو اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ ہمارا شہر ترقی کر رہا ہے۔کیونکہ ترقی کی راہ پر جانے کی بہت سی علامات ہو تی ہیں۔جن میں کچھ ظاہر اور کچھ پوشیدہ ہوتی ہیں۔ جو ظاہر ہوتی ہیں وہ تو نظر آہی جاتی ہیں اگر غور کریں تو ان تک نگاہ پہنچ جاتی ہے۔مگر کچھ ظاہری علامتیں ایسی ہوتی ہیں جو کچھ زیادہ ہی ظاہر ہوتی ہیں۔ اب سڑکوں پر دیکھیں بلکہ دیکھیں نہیں آپ کو خود بخود نظر آ جائیں گی۔اب کہنے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بل بورڈز کی تنصیب ہی نہ ہو۔ یہ تو تشہیر کا ایک مناسب اور موثر انداز ہے، ترقی یافتہ ممالک میں بھی ان سے بھر پوراستفادہ کیا جاتا ہے، تاہم ضرورت محض قواعد وضوابط اور شہر کی خوبصورتی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا استعمال کرنا ہے۔یعنی بل بورڈز کی تنصیب بدلتے وقت کا تقاضا بھی ہے اور اس کے ڈھیر سارے فوائد بھی ہوں گے تاہم ہر کام کے جملہ پہلوؤں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔