سائنس و ٹیکنالوجی اور اِس سے متعلقہ علوم و ایجادات کا کسی بھی مذہب یا مسلک سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ انسانیت کی بالعموم فلاح و بہبود اور معاشرے میں پائی جانیوالی ناہمواریوں کو ہموار کرنے کیلئے بروئے کار لائے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اب تک کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ’سماجی رابطہ کاری (سوشل میڈیا) وسائل‘ کا اختلافات و نفرتیں کم کرنیکی بجائے اِنہیں بڑھانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے؛یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرتیں اور غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں‘ ایک گرانقدر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ”اسلامی تعلیمات و مقدسات اور مسلمانوں کی ساکھ کے بارے میں انتہا پسندی پر مبنی مواد کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پھلنے پھولنے دیا جا رہا ہے“ ظاہر سی بات ہے کہ اِس طرح کے نفرت انگیز مواد سے نہ صرف مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے بلکہ غیرمسلم ممالک میں رہنے والوں کیلئے مشکلات بھی پیدا ہوتی ہیں‘ اُنہیں اپنے خلاف حملوں کا خطرہ رہتا ہے جس سے معمولات ِزندگی متاثر ہو رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر نفرت انگیز مواد پر نظر رکھنے‘ اِس کی وضاحت بارے قائم ایک امریکی تنظیم ”سنٹر فار کاؤنٹرنگ ڈیجیٹل ہیٹ نے اپنی حالیہ تحقیق کے مندرجات جاری کئے جن میں اِس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ ”سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کا استعمال منفی مقاصد کیلئے کرنیوالے اِسکے ذریعے نفرت اور نسل پرستی کو ہوا دے رہے ہیں“سوشل میڈیا کے ذریعے ایک طرف مسلمانوں کی منظم کردار کشی ہو رہی ہے تو دوسری طرف ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ مسلمانوں کو اِس کا جواب دینے سے بھی روکا جاتا ہے اُور مسلمان علما کی طرف سے اعتراضات کے جوابات کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ہٹا دیا جاتا ہے لیکن اُن کے خلاف مواد کو تشہیر کیلئے باقی رکھا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا وسائل فراہم کرنیوالے عالمی اداروں کے اِس ’دوغلے پن‘ سے تخریب و انتہاپسندی کو ہوا مل رہی ہے۔ اسلام کے خلاف مختلف ادیان کی سرپرستی کرنیوالے مغربی ممالک کو سمجھنا ہوگا کہ وہ جس آگ سے کھیل رہے ہیں اِس سے اُن کے اپنے ہاتھ بھی جل سکتے ہیں۔ وہ نفرتیں جو مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جاتی ہیں‘ اُن کے یکساں منفی نتائج اُن معاشرتی جڑوں کو بھی کھوکھلا کرنے کا باعث بن رہے ہیں جو ترقی یافتہ ہونیکی دعویدار ہیں۔ مغربی معاشروں میں ’آزادیئ اظہار‘ کا مطلب اگر صرف مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز خیالات و تصورات پھیلانے کو لیا جا رہا ہے تو اِس طرزعمل کی اصلاح ہونی چاہئے‘مسلمانوں کو بھی آن لائن مذہب اور تقریر کی آزادی دیتے ہوئے اُن باطل تصورات کی وضاحت کا موقع ملنا چاہئے‘ سوشل میڈیا کے ایک مقبول ذریعے ’ٹوئیٹر‘ پر ”19 اگست سے 22 اگست 2022ء“ کے درمیان 38 لاکھ (3.8ملین) پیغامات (ٹوئٹس) جاری ہوئے یا اُن کا ایک دوسرے سے تبادلہ ہوا‘ٹوئیٹر سے زیادہ مقبول 2 سوشل میڈیا وسائل فیس بک اور انسٹاگرام استعمال کرنے والے صارفین کی مجموعی تعداد اربوں میں ہے! امریکی ادارے کے مطالعے میں مسلم مخالف جن 38 لاکھ ٹوئیٹر پیغامات کی بات کہی گئی ہے وہ اُس مسلمان مخالف مہم کا عشرعشیر بھی نہیں جو منظم انداز میں چلائی جا رہی ہے‘ ذہن نشین رہے کہ ’بوٹس کسی بھی کمپیوٹر پروگرام کا وہ حصہ ہوتا ہے جو پیغامات کی خودکار تشہیر کرتا ہے اُور اِس کے ذریعے مخصوص الفاظ کا انتخاب کر کے پیغامات تخلیق کئے جاتے ہیں جو ازخود پھیلتے رہتے ہیں۔امریکہ میں ہوئی تحقیق سے مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت کا مرکز ’بھارت‘ سمیت تین ممالک کو قرار دیا گیا ہے جہاں سے نفرت انگیز مواد تیار کر کے تقسیم کیا جاتا ہے اِسلام اور مسلمانوں کی کردارکشی کے باعث ’اسلاموفوبیا کسی وبائی مرض کی طرح پھیلتا چلا جا رہا ہے اُور مسلمانوں کو عالمی سطح پر اپنے مقدسات و اقدار کے تحفظ کے لئے منظم و مربوط لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ مسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیم ’آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کی ویب سائٹ (oic-oic.org) پر اسلاموفوبیا کی تشریح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ”اِسلاموفوبیا اسلام کیخلاف نفرت‘ خوف اُور تعصب کا مجموعہ ہے“ کیا مسلم نوجوانوں کو اِس اصطلاح اور اِسکے جامع مفہوم کے بارے میں آگاہی ہے؟ اگر نہیں تو ضرورت اِس اَمر کی بھی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر جاری سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ’دین شناسی اُور حالات حاضرہ سے متعلق معلومات‘ عام کی جائیں۔ قابل ذکر ہے کہ ’اسلاموفوبیا‘ کے بارے پاکستان کی جانب سے کوششوں کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے اُور اِنہی کوششوں کے نتیجے میں چوبیس اکتوبر اُنیس سو پینتالیس کے روز قائم ہونیوالی عالمی تنظیم ’اقوام متحدہ‘ جسکے 193 ممالک رکن ہیں اور سال 2022ء سے ہر سال ”پندرہ مارچ“ کا دن ”اینٹی اسلامو فوبیا ڈے“ کے طور پر منایا جا رہا ہے جو قابل تعریف قدم ہے تاہم دنیا بھر میں اسلام مخالف رجحانات روکنے کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ جہاں تک بھارت سے اسلام مخالف ’ٹوئیٹر‘ پیغامات جاری ہونے کی بات ہے تو پاکستان حکومت ایسے پیغامات اُور اِن پیغامات کو جاری کرنیوالے ٹوئیٹر اکاؤنٹس پر پابندی عائد کر کے اُنہیں روک سکتی ہے‘ ٹوئیٹر پر مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز مواد کو دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پھیلایا جاتا ہے‘ اِس سلسلے میں بااثر مسلم ممالک کے ساتھ ہر سوشل میڈیا صارف کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس معاملے کی سنجیدگی کو سمجھے‘ مسئلے کا ادراک کرے‘ غیردانستہ طور پر سوشل میڈیا کے ایسے پیغامات کی تشہیر کا حصہ نہ بنے جو ’نفرت و تعصب اُور اختلافات‘ کو ہوا دینے کا باعث بن رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں بالخصوص مسلم ممالک اُور مسلمان ٹیک کمپنیوں کو مربوط یا انفرادی حکمت عملی کے طور پر الگ سوشل میڈیا پلیٹ فارم بھی بنانا چاہئے جس کا استعمال صرف اُور صرف تعمیری و مثبت مقاصد کیلئے ہو‘ اِس کے ذریعے دنیا تک اسلام کے فلاح انسانیت سے متعلق تعمیری پیغامات (اسلام کا اصل چہرہ اُور اسلامی تعلیمات کے حقیقی خدوخال) پہنچائے جائیں جس سے مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ ملے‘ نفرتیں کم ہوں اور اسلام کیخلاف جاری سازشیں ناکام بنائی جا سکیں۔