کیرم بورڈ کی کوئین

ہم کیرم بورڈ کھیلا کرتے تھے۔پھر اتنا کہ ہمہ وقت کھیلتے۔ایک عمر ہوتی ہے پاگل پن کی۔ اتنا کھیلتے کہ جیسے کسی عالمی کپ میں ملک کی نمائندگی کرنا ہو‘ بیٹھک کھل جاتی اور چار دوست ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتے۔پھر ان چاروں کی کمرپیچھے آٹھ آدمی مزید کھڑے ہوکر تماش بینوں کے فرائض انجام دیتے۔کیرم بورڈ میں تو اصل مسئلہ کوئین کا ہوتا ہے وہ اگر کسی کو حاصل ہوجاتی تو اسکی جیت یقینی ہو جاتی‘کیرم بورڈ کے چار کناروں پر لٹکی ہوئی جیبوں میں یہ گیٹیاں پِِل جاتی تھیں۔گیم ختم ہو جاتی۔ مگر جیت جانے والا اس میدان میں سرخ رُو ٹھہرتا‘اب تو خیر کیرم بورڈ کا وہ جنون نہیں رہاجو چالیس سال پہلے ہوتا تھا۔ ہمارے بہت پیارے دوست تھے۔ وہ کیرم بورڈ کے بادشاہ تصور کئے جاتے تھے۔ ان کے مقابل آ کر کھیلنا بہت دل گردے کا کام تھے۔ ہم دوستوں میں ان کی دھاک تھی۔ ان کے ذرا سے ایک سٹروک سے کیرم بورڈ کے پاؤڈر والی پچ پر سے گوٹی آہستگی سے پھسلتی ہوئی سیدھی کیرم  بورڈ کی زمین میں بنی ہوئی پاٹ میں گر جاتی۔پتہ نہیں اس گیم میں کتنے کروڑ گیٹیاں تب سے اب تک اس زمین میں جا کر پل چکی ہوں گی۔ جانے کہا ں کہاں کس زمین میں دفن ہو چکی ہیں۔کوئین ہی کو لے لیں آخرِ کار اس نے بھی کیرم بورڈ کی پاٹ میں جاکر اپنی آخری آرام گاہ میں سونا تھا اس لئے چاندی ہو یا زر ہو سب نے اپنے اپنے نمبر پر کیرم بورڈ کے اس میدان میں ایک دوسرے سے الجھتے ملتے انھیں چاروں میں سے ایک پاٹ میں جا کر ہمیشہ کے لئے آرام کرنا ہوتا ہے۔خدا بخشے ادریس نام تھا اور اس حد تک چیمپئن تھے کہ کیرم بورڈ کو اپنے کاندھے پر لاد کر دوستوں یاروں کی گلیوں میں ٹھکانے کی تلاش میں گھومتے۔جہاں دوست گھرمیں ہوا وہاں آواز دے کر خود ہی بیٹھک کھول کر بیٹھ جاتے اور اگر کوئی حریف نہ بھی ہوتا۔یا کسی کے پاس وقت نہ ہو تو اکیلے ہی قہوہ کی چینک دوست کے گھرمیں اندر سے منگوا کر یا باہر جہاں قہوہ کی دکان قریب ہوتی اس کو آرڈر دے کر اپنا مزے سے قہوہ کی سرکیاں بھی لیتے اور خود ہی اکیلے بیٹھ کر گوٹیوں کو دے مار شارٹیں لگا رہے ہوتے۔پورے کریم بورڈ میں ان کے ہاتھ سے گوٹیوں میں افرا تفری پھیل جاتی۔قہوہ والا لڑکا گلی میں آتا تو بیٹھک کی کھڑکی کھلی دیکھ کر پوچھتا قہوہ چلے گا۔ اس پر یہ انکار کیوں کریں گے۔ کیرم بورڈتو رمضان کی راتوں میں خود بھی کھل کھیلتا تھا۔ گلی کے باہر کرسیاں سج جاتی تھیں۔ ساتھ چارپائیاں بھی پڑی ہوتی تھیں۔معین ارباب کی سربراہی میں یہ منڈلی سجتی تھی۔رمضان میں تراویح پڑھ کر ان دنوں ٹینس بال سے کرکٹ کھیلنے کا رواج عام نہیں ہوا تھا۔بہت سے شہریوں کے ان راتوں میں سحری تک مختلف مشاغل ہو تے تھے۔ مگر مسئلہ یہ کہ یہ لوگ پھر دن بھر سویا کرتے تھے۔ان دنوں کیرم کا دامن جنون کے دامن بندھاہوا تھا۔ ایک کریز تھا۔پھر سنوکر کا دور آیا۔ بعد ازاں چالیس سالوں میں وہ وہ کھیل ایجاد ہو چکے ہیں کہ اب کیرم کو اتنی وقعت نہیں دی جاتی۔ اب تو کرکٹ کے رات کے میچ دیکھے جاتے ہیں۔ پھر اگر اس طرح کا کوئی ایونٹ نہ ہو تو خود بیٹ بال لے کر سڑک پر رات کے وقت تو چھوڑ دن کو چلتی ہوئی ٹریفک کے دوران میں تحصیل گورگٹھڑی کے باہر کرکٹ کھیلتے ہیں خواہ گیند جس کو بھی جا کر لگ جائے۔اس کی پرواہ کسی کھلاڑی کو نہیں اس سڑک پر کتنے ہی چوکے چھکوں کے تیز رفتار گیند ہمارے بھاری بھرکم پیٹ پر موٹر سائیکل چلاتے ہوئے آکر لگے ہیں۔مگر ہم نے منہ سے اف تک نہ کی۔اس لئے کہ یہ لوگ باز آنے والے نہیں ہیں۔ احتجاج ریکارڈ کروا کر کیاکر لیں گے۔