افغانستان میں طالبات کی تعلیم

افغان طالبان نے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے افغان خواتین پر عائد کی گئی  پابندیوں کو ختم کرنے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی ادارے کے یہ تحفظات بے بنیادہیں‘سلامتی کونسل نے چند روز قبل متفقہ طور پر ایک قرار داد منظور کی‘ جس میں طالبان کی جانب سے گذشتہ سال اقتدار سنبھالنے کے بعد خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور ملازمت تک رسائی کو محدود کرنے اور انکے سفر کی آزادی سلب کرنیکی مذمت کی گئی‘واضح رہے کہ طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخونزادہ کی جانب سے نہ صرف خواتین کو عوامی مقامات پر چہرے سمیت پورا جسم ڈھانپنے کے احکامات دیئے گئے بلکہ انکے حکم پر تادم تحریر سیکنڈری اورہائرسیکنڈری سکول کی سطح پر طالبات کی تعلیم پر بھی پابندی عائد ہے حالانکہ طالبان کئی مواقع پر اس بات کااظہار کرچکے ہیں کہ وہ طالبات کی تعلیم کیخلاف نہیں بلکہ بعض تکنیکی اور مالی مسائل کی وجہ سے وہ فی الحال طالبات کی تعلیم کی اجازت نہیں دے رہے‘یادرہے کہ سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک نے پچھلے دنوں بیک زبان طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی ان پالیسیوں اور فیصلوں کو واپس لیں جنکے ذریعے افغان خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو سلب کیا گیا‘جبکہ عالمی ادارے نے طالبان حکومت سے لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کو کھولنے کا بھی مطالبہ کیاہے؛اس فیصلے کے ردعمل میں افغان وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہماری حکومت ان تحفظات کو بے بنیاد سمجھتی ہے ہم افغان خواتین کو حقوق دینے کیلئے پُرعزم ہیں‘ افغانستان میں اکثریت چونکہ مسلمانوں کی ہے اسلئے افغان حکومت معاشرے کی مقامی ثقافت اور مذہبی روایات کے تناظر میں حجاب کو لاگو کرنے پر یقین رکھتی ہے‘یہاں اس امر کی جانب نشاندہی بھی اہمیت کی حامل ہوگی کہ طالبان کے 1996 سے 2001 تک پہلے دوراقتدار کوخواتین کیخلاف سخت ترین اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے تاہم گذشتہ برس اگست میں برسر اقتدار آنے کے بعد طالبان نے ماضی کے برعکس جہاں مخالفین کیلئے عام معافی کااعلان کیاوہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں نرم قوانین نافذ کرنیکا عندیہ بھی دیا تھا لیکن مغربی دنیا کی نظر میں وہ اب بھی ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن کو عالمی برادری خواتین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں‘طالبان نے پہلے اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں ہائی سکول لڑکیوں کیلئے اپنے دروازے کھول دینگے لیکن بعد میں اپنے فیصلے کو اس وقت تک تبدیل کر دیا جب تک یہ فیصلہ نہ ہو جائے کہ لڑکیوں کیلئے مناسب یونیفارم کیا ہو گا‘اسی اثناء اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ طالبان کا فیصلہ نہ صرف خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کے مساوی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ یہ افغان خواتین اور لڑکیوں کی زبردست شراکت کے پیش نظر ملک کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے تاہم دوسری جانب اقوام متحدہ میں طالبان کے نامزد سفیر سہیل شاہین نے عالمی برادری کو یقین دلایاہے کہ سکولوں میں لڑکیوں پر پابندی لگانے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے،یہ صرف لڑکیوں کے سکول یونیفارم کی شکل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا ایک تکنیکی مسئلہ ہے جسے جلد حل کرلیا جائے گا۔