کمال اور زوال کی داستان

 ہم نے وہ دور بھی دیکھا ہے کہ جب پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز کا شمار دنیا کی چند بہترین ائر لائنز میں ہوتا تھا اور یہ وہ دور تھا کہ جب اس کی قیادت ائر مارشل اصغر خان اور ائر مارشل نور خان جیسے لوگوں کے ہاتھ میں تھی پی آئی اے دینا بھر میں ہماری شناخت تھی اسی عمدہ شہرت کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک نے پی آئی اے سے درخواست کہ وہ ان کی ائر لائن کے قیام میں ان کی مدد کرے‘یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اس کے جہاز وقت مقررہ پر اڑتے تھے اس زمانے میں منعم خان اس وقت کے مشرقی پاکستان کے گورنر تھے وہ کراچی سے ڈھاکہ جانے والی ایک پرواز میں بک تھے ایساہوا کہ وہ وقت مقررہ پرائر پورٹ نہ پہنچ سکے اور جب وہ پہنچے تو جہاز ٹیک آف کر چکا تھا وہ آگ بگولاہو گئے اور انہوں نے صدر پاکستان کو ایک شکایتی خط لکھ ڈالا کہ جہاز کے پائلٹ کو ان کا انتظار کرنا چاہئے تھا آخر وہ گورنر تھے وہ خط صدر نے پی آئی اے کے سربراہ کو تبصرہ کیلئے ارسال کر دیا‘کمپنی کے سربراہ نے اس کے جواب میں صدر کو لکھا کہ انہیں پی آئی اے کو اس بات پر شاباش دینی چاہئے کہ وہ وقت کے اتنے پابند ہیں کہ گورنر کی بھی پرواہ نہیں کرتے پھر جب ہماری قومی ائر لائن کا زوال شروع ہوا تو ہم نے دیکھا کہ اس کے جہاز وقت مقررہ سے لیٹ پرواز بھرنے لگے اس میں مختلف کیڈرز میں جو بھرتیاں ہوتی تھیں ان میں بتایا گیا کہ میرٹ کی دھجیاں اڑانے جانی لگیں مختصر یہ کہ اس کا ہر شعبہ رو بہ زوال ہوا اور پی آئی اے کا آج جو برا حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔آئیے اب وطن عزیز کی موجودہ صورتحال پر ایک نظر ڈالتے ہیں‘پاکستان کے عوام ملک کی موجودہ سیاسی حالت پر مضطرب ہیں اور وہ درج ذیل سوالات کے جوابات چاہتے ہیں‘ کیا تمام سٹیک ہولڈرز الیکٹرونک مشین کے استعمال پر متفق ہو جاہیں گے‘کیا اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا جائے گا‘کیا موجودہ الیکشن کمیشن بشمول چیف الیکشن کمشنر تمام سٹیک ہولڈرز کو منظورہوں گے‘آدھے سے زیادہ ملک سیلابوں کے پانی میں ڈوباہواہے کیا ان حالات میں الیکشن کمیشن اس قابل ہوگا کہ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے الیکشن کا انعقاد ممکن بنا سکے‘اگر ان سوالات کے جوابات نفی میں آتے ہیں تو پھر اس ملک کے ارباب بست و کشاد کے پاس دوسرا کیا آپشن ہو سکتا ہے‘جس کے ذریعے حالات کو معمول پر لایا جا سکے۔اس ملک کی معاشی حالت ایسی ہے کہ اس کو سنبھالنے پر توجہ نہ دی گئی تو یہ مزید ابتر ہو گی‘حکومت نے کچھ عرصہ قبل لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی کا جو فیصلہ کیا تھا اسے عوام کی اکثریت نے سراہا تھا اس لئے ان کے لئے یہ خبر پریشان کن ہے کہ اب ان لگژری اشیا ء کی درآمد پر پابندی اٹھا ئی جارہی ہے‘عوام کی اکثریت تو یہ توقع کر رہی تھی کہ حکومت وقت لگژری اشیا ء کی درآمد پر پابندی کا جال مزید پھیلائے گی‘اب وقت ہے کہ ملکی معیشت کی جلد از جلد بحالی پر بھرپور توجہ دی جائے تاکہ عام آدمی کو کوئی ریلیف مل سکے جو اس وقت منگائی کے ہاتھوں کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔