گھڑی کی ٹک ٹک 


جہاں گھڑیال کی آواز بھی سماعت پر بوجھ محسوس ہوتی ہو وہا ں اس معاشرے میں جہاں انسانوں کی بہتات ہے شور کس کس طرح پیدا ہورہا ہے جو آدمی کو چڑچڑا بنا دیتا ہے۔سر میں درد پیدا کرتا ہے۔ہم سوچتے ہیں کہ درد کی گولی کھالیں مگر اس کے باوجود بھی آئے دن سردردی کی حالت قائم رہتی ہے۔جب گھڑی کی ٹک ٹک بھی ایک بوجھ ہو تو بازاروں میں فضول کے بجنے والے اور جان بوجھ کر بجائے جانے والے ہارن انسان کی زندگی پرکیا اثرات ڈالتے ہوں گے۔پھر اس قسم کے شور جن کی سینکڑوں قسمیں ہیں جو نا محسوس طریقے سے انسان کو بیمار کرتے ہیں ان کا آخر کیا علاج ہے۔یہی تو آواز کی آلودگی ہے‘اس سے بچنا کتنا مشکل ہے۔اگر گھرکے کمرے میں قالین بچھے ہوئے ہیں تو اس کے دھاگوں سے ٹچ ہوکر آنے والی سانس بھی آلودہ ہو جاتی ہے۔جس کی وجہ سے آدمی کو سانس کی تکالیف ہوتی ہیں۔دمہ ہونا‘ سینے میں انفیکشن ہونا‘سانس کی نالیوں میں بگاڑ پیدا ہونا۔ یہ اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ گھرمیں مناسب ہوا کاعمل نہ ہو‘گھرکے دیوارو در بند ہوں اور وینٹی لیشن درست نہ ہو۔روشن دان نہ ہو کھڑکیاں کھلی نہ ہوں تو انسان کی سانس کو خرابی کا شکارہونا ہوتاہے۔اب ماحول کو ہم خود جو خراب کریں تو افسوس ہے‘ماحولیاتی آلودگی سے بچنا بہت مشکل ہے۔جہاں تک انسان کے اپنے بس کی بات ہے وہ تو کوشش کرے گا۔ مگر ہمارے ہاں کے لوگ کوشش بھی کب کرتے ہیں۔ میں انسان کی مداخلت کے سبب ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔اگر کوئی آتش فشاں پہاڑ پھٹتا ہے اور دھواں اور راکھ نکلتی ہے تو یہ علیحدہ بات ہے۔مگر انسان خود موٹرسائیکلوں اور رکشوں کے سائیلنسر جان بوجھ کرٹھیک نہ کروائے اور ان میں سے دھواں ہر وقت خارج ہوتا رہے تو شہر کی صاف ستھری فضا کو خراب کرنا اسے کہتے ہیں۔آلودگی ایک قسم کی تو نہیں۔ آلودگی انسان کی زندگی کی قاتل ہے۔آلودگی انسان کو معلوم بھی نہیں ہوتا اور اس کے امیون سسٹم کو خراب کر دیتی ہے۔اب پانی ہے اس میں بھی ذرات مل جائیں تو یہ پینے کے لئے درست نہیں رہتا مگرانسان مجبور ہو کر پیتا جائے تواس سے بھی بہت سے امراض میں اضافہ ہوتا ہے۔شور سے بلڈ پریشر کے نئے مریض سامنے آتے ہیں۔ہم کوئلہ جلاتے ہیں لکڑی کو آگ میں جھونکتے ہیں گیس کو اپنی ضرورت کے لئے کام میں لاکر آگ جلاتے ہیں یہی مجبوری ہے۔جہاں ضرورت ہے وہاں سے درختوں کو کاٹتے ہیں مگر جتنے کاٹے اتنے درخت نہیں لگاتے۔تیل جلاتے ہیں گاڑیوں میں پٹرول جو اتنی وافر مقدار میں جلایا جاتا ہے اس کا بھی تو آخر کوئی نہ کوئی اثر پیدا ہوتا ہے یہ جلاہوا پٹرول کہاں جاتا ہے۔اسی ماحول میں موجود رہ جاتا ہے مگر کسی دوسری شکل میں کہ انسان کی سانس کے لئے خطرہ بن کر اس کو ہر وقت ڈستا رہتا ہے۔جنگل میں آگ لگ جاتی ہے اور دھواں پھیلتا جاتا ہے‘کارخانے جو دھواں چھوڑتے ہیں اور پھر ان کارخانوں میں سے نکلنے والا گند گریل اور فالتو کیمیکل جو کارخانہ کی نالیوں میں سے نکل کر باہر کھلی فضا کو خراب کرتا ہے۔یہ سب اوزون کی تہہ کے شگاف کو بڑھا رہے ہیں۔ یہ انسان کو کیا نقصان پہنچائیں گے خود عام سے پرندے بھی ماحولیاتی آلودگی کاشکار ہو رہے ہیں۔آلودگی کیا ہے اورپھرماحولیاتی آلودگی کیا ہے۔اس پرسوچنا چاہئے۔ کسی بھی خالص چیز میں کسی دوسری چیز کو مکس کرنا آلودگی ہے۔آتش فشاں کا پھٹنا علیحدہ بات ہے اور ہمارا چیزوں کو جلاکر دھوئیں پیدا کرناخود الگ فعل ہے۔اس کا تو واحد علاج درختوں کا زیادہ ہونا ہے مگر یہاں تو درخت تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں۔ہوا کی آلودگی کو درخت کھاجاتے ہیں کیونکہ یہ ان کی خوراک ہے اور وہ اس نتیجے میں ہمیں آکسیجن بہت وافر مقدار میں دیتے ہیں۔مگر آلودگی کی وجہ سبزہ بھی متاثر ہو رہا ہے‘ہر خالص چیز میں ملاوٹ کرنا بہت برا ہے مگر بعض کاموں میں ہم یہ آلودگی کرنے پرمجبور ہیں کیونکہ اس کے بغیر ہمارا کام نہیں چلتا۔اب آلودگی کی مختلف اقسام ہیں۔ یہ جو آبادی کازیادہ ہونا ہے یہ سب سے بڑی آلودگی ہے۔اس سے ڈھیروں مسائل پیدا ہوتے ہیں جو خود اس آبادی کیلئے انتہائی مضر ہیں۔جتنے بندے زیادہ ہوں گے اتنی ہی ان کی ضروریات زیادہ ہوں گی۔اس لئے نتیجے کے طور پر لوگ ہر خالص چیز کو خراب کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ان کامطلب نکل جائے۔ہم لوگ تمباکو نوشی تک نہیں چھوڑ سکتے۔تمباکو پیتے ہیں سگریٹ ہو یا سگار ہو یا کوئی اور ذریعہ ہو۔جب یہ حالت ہو توہمارا اس آلودگی سے دامن چھڑانا بہت مشکل ہے سو ہم خود ہی ماحول کو خراب کرنے کاباعث بن رہے ہیں۔ جب یہ حال ہوگا تو ہمارا جینا اس شہر میں اس زمین پر ہمارے اپنے ہی ہاتھوں محال ہو جائے گا۔ اس پر سوچ بچار کی ضرورت ہے۔