کورونا وباء کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں کے ظہور سے اِنسداد ِغربت کی ملکی و بین الاقوامی کوششوں کو دھچکا پہنچا ہے۔ ایک وقت تھا جب کورونا وباء کو انتہائی تباہ کن سمجھا جا رہا تھا لیکن قدرتی آفات نے صورتحال کو زیادہ گھمبیر اور صورتحال سے نمٹنے کو زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔ ماہرین کی پیشگوئیوں کے نتیجے میں قدرتی آفات کے ظہور کا ایک وقت میں اندازہ تو تھا لیکن اِن آفات کے یوں شدت سے ظاہر ہونے کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ ورلڈ بینک کے مطابق سال 2020ء سے عالمی سطح پر انسداد غربت کی کوششیں مختلف وجوہات کے باعث متاثر ہوئی ہیں‘ بالخصوص کم آمدنی یا غربت میں پھنسے طبقات کو ایک کے بعد ایک دھچکا مل رہا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر ’غربت میں فوری کمی‘ کا امکان نہیں ہے عالمی بینک موسمیاتی تبدیلیوں کو ایک دہائی کے دوران سب سے بڑا وقوعہ قرار دے رہا ہے۔ حکمت عملی وضع کی گئی تھی کہ سال دوہزارتیس تک دنیا سے انتہائی غربت کا خاتمہ کر دیا جائے گا لیکن موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا عملاً ممکن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا وبائی بیماریاں جو دو سال سے پھیلی تھیں اگرچہ اب ہلاکتوں کے ساتھ وہ موجود ہیں لیکن دنیا کو کسی بھی وباء سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی سے خطرہ ہے۔ اعدادوشمار سے اخذ کیا گیا ہے کہ سال دوہزاربیس میں قریب سات کروڑ افراد انتہائی غربت کا شکار ہوئے ہیں جو تیس سال قبل 1990ء کے بعد سے بڑی تعداد ہے۔ عالمی سطح پر اِس حوالے سے سوچ بچار ہو رہی ہے کہ یومیہ دو سے ڈھائی امریکی ڈالر آمدنی رکھنے والوں کی زندگیوں میں کس طرح تبدیلی (بہتری) لائی جائے۔ دو سے ڈھائی امریکی ڈالر یومیہ آمدنی کا پیمانہ مقرر کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ایسے کم آمدنی رکھنے والے طبقات کی مدد کی جا سکے۔ وبائی امراض اور قدرتی آفات کے علاوہ‘ روس یوکرین جنگ بھی ’مہنگائی میں اضافے‘ کا باعث ہے ورلڈ بینک پہلے ہی خبردار کر چکا تھا کہ سال کے آخر تک ساڑھے نو کروڑ افراد انتہائی غربت سے دوچار ہوں گے تاہم روس یوکرین جنگ نے اِس صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے اور عالمی ترقی و تعاون دباؤ میں ہے۔ سرمایہ دار ممالک کی جانب سے انسداد غربت کی کوششیں اگرچہ جاری ہیں لیکن اِن میں گرمجوشی دیکھنے میں نہیں آ رہی‘ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے متاثرین کی امداد و بحالی کے لئے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اپیل کا بھی خاطرخواہ بڑے پیمانے پر جواب نہیں دیا جا رہا وہ سبھی لوگ جو پہلے واجبی وسائل پر انحصار کر رہے تھے‘ اُن کے لئے زندگی گزارنا مزید مشکل ہو گیا ہے اور کئی ایسی صورتیں بھی ہیں جن میں ایک وقت کا کھانا ملنا بھی دشوار ہے اور نوبت فاقہ کشی تک جا پہنچی ہے‘ عالمی سطح پر کرنسیوں کی قدر میں کمی کا اثر پاکستان میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی (افراط زر) میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس نے انتہائی غربت کے موجودہ اور آنے والے زیادہ بڑے ممکنہ بحران کا ذکر کرتے ہوئے انسداد غربت کیلئے عالمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے اور ایسے ممالک کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے جو شدید معاشی بحران اور غربت دیکھتے ہوئے بھی اِسے نظرانداز کر رہے ہیں‘معلوم حقیقت ہے کہ جب تک عالمی اقتصادی ترقی میں تیزی نہیں آتی‘ اُس وقت تک انتہائی غربت کے خاتمے کی جملہ کوششیں خاطر خواہ نتائج کی حامل نہیں ہوں گی‘انتہائی غربت کی تعریف اپنی جگہ گمراہ کن بھی ہے کیونکہ اس پیمانے سے ناپ تول کرتے ہوئے کروڑوں غریبوں کو غربت کے دائرے سے باہر کر دیا جاتا ہے جو درحقیقت یکساں شاید غربت کا شکار ہوتے ہیں یا شدید غربت کے دہانے پر ہیں اور اُن کی آمدنی وسائل مستقل بھی نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص صرف دو اعشاریہ دو امریکی ڈالر (500 پاکستانی روپے) یومیہ کما رہا ہے تو عالمی پیمانے کے مطابق اسے انتہائی غریب شمار نہیں کیا جاتا جبکہ پندرہ ہزار روپے مہینے سے کم پر ملازمت پیشہ افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے اور یہ اپنا گزر بسر کس طرح کرتے ہیں یہ بات سمجھنا اور محسوس کرنا آسان نہیں ہے۔ پاکستان کی زرعی معیشت و معاشرت میں غربت کے اثرات نسبتاً کم ہیں جبکہ براعظم افریقہ (سب صحارا) میں انتہائی غربت کی شرح بلند ہے جہاں عالمی بینک کے مطابق کل آبادی کے ساٹھ فیصد سے زیادہ ’انتہائی غربت‘ کا شکار ہیں! اگر عالمی سطح پر ’دو اعشاریہ دو امریکی ڈالر‘ یومیہ آمدنی کے پیمانے کو ’ڈھائی ڈالر یومیہ‘ سے تبدیل کیا جائے تو براعظم ایشیا اور لاطینی امریکہ میں کروڑوں لوگوں کا شمار انتہائی غربت کے زمرے میں ہو جائیگا سرمایہ دار ممالک غربت کی شرح میں جاری اضافے سے متعلق اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآء نہیں ہو رہے انکے پاس وبائی امراض اور دیگر قدرتی آفات سے نمٹنے یا اِن پر قابو پانے کے علاوہ زیادہ خوراک کی پیداوار حاصل کرنے جیسے وسائل بھی موجود ہیں لیکن انہیں محدود رکھا گیا ہے گلوبل ساؤتھ اور ترقی پذیر معیشتوں کو غربت کے جال سے نکلنے کیلئے مدد کی ضرورت ہے جس کیلئے امیر ممالک کو اپنے استحصالی کردار پر نظرثانی کرنی چاہئے۔