کرے کوئی اور بھرے کوئی 

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ موسمیاتی تبدیلی میں پاکستان کا کردار ایک فیصد سے بھی کم ہے اور اس کے باوجود اس تبدیلی نے اگر دنیا کے کسی ملک میں سب سے زیادہ تباہی مچائی ہے تو وہ پاکستان ہے۔ کیا یہ اب ان ممالک کا اخلاقی فرض نہیں بنتا جو اس موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ہیں کہ وہ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے جو بے پناہ نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کے لئے دل کھول کر پاکستان کی مدد کو آگے آئیں۔ چند روز قبل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر پاکستان نے مستقبل میں وطن عزیز کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کیلئے جو روڈ میپ دیا ہے اس سے کوئی بھی ذی ہوش شخص ا ختلاف نہیں کر سکتا۔ ہر سال لاکھوں کیوسک سیلابی پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے اگرہم نے ملک میں ڈیم بنائے ہوتے تو نہ صرف ہم وطن عزیز کو سیلابوں سے بچا سکتے ہم توانائی کے بحران کا کبھی بھی شکار نہ ہوتے اور زراعت کے لئے بھی ہمارے پاس وافر مقدار میں پانی ہوتا کاش کہ ہم نے چین سے ہی اس ضمن میں کچھ سبق سیکھا ہوتا۔ عقلمند وہ کہلاتے ہیں جو ماضی کے تجربات سے فائدہ ا ٹھا کر مستقبل میں پرانی غلطیوں سے اجتناب کرتے ہیں ہماری جن جن کمیو ں اور کوتاہیوں سے ہمیں سیلابوں سے نقصان پہنچا ہے آئندہ اس قسم کی غلطیاں نہیں ہونی چاہئیں۔پانی کی قدرتی گزر گاہوں کو ہمیں صاف اور کھلا رکھنا ہوگا اور ان میں یا ان کے نزدیک کسی عمارت کو کھڑا کرنے کی اجازت نہیں دینا ہو گی اگر اس بابت کسی قانون سازی کی ضرورت ہے تو اسے فوراً سے پیشتر پارلیمنٹ سے منظور کرانا ہوگا۔ اب کچھ تذکرہ عالمی امور کا ہوجائے جہاں افغان معیشت کو صرف ایک سال میں تقریبا ًپانچ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کی پچانوے سے ستانوے فیصد آبادی اب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ایشیا اور بحرالکاہل کے لئے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی ڈائریکٹر کنی وگناراجا نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں بتایا کہ افغانستان کوصرف ایک سال میں تقریبا ًپانچ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کھانے پینے کی بنیادی اشیا کی قیمتوں میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے،افغان اپنی آمدنی کا  60 سے 70 فیصد  اور ان میں سے بعض 80 فیصد تک خوراک اور ایندھن پر خرچ کرتے ہیں۔ وگناراجا کا کہنا تھا، ''افغانستان کی 95 سے 97 فیصد آبادی اب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔افغانستان میں یو این ڈی پی کے نمائندے عبداللہ الدرداری نے کہا کہ صرف انسانی امداد ہی معاشی تباہی کی تلافی نہیں کر سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ امداد کی ضرورت والے افغانوں کی تعداد صرف 14 ماہ میں 19 ملین افراد سے بڑھ کر 22 ملین افراد تک پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگلے تین سالوں میں ہم نجی شعبے کی بحالی کے ذریعے، مقامی برادریوں کے ساتھ کام کر کے، خواتین کاروباری افراد پر توجہ مرکوز کرکے اور زرعی پیداوار، مائیکرو فنانس اور بینکنگ کی بحالی کے ذریعے 20لاکھ ملازمتیں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔افغانستان کو اس وقت جن مشکلات کا سامنا ہے اس میں امریکہ کا بڑا ہاتھ ہے جس میں پہلے یہاں پر آکر جنگ کا میدان گرم کیا اور بعد میں جاتے ہوئے افغانستان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔