نئی نویلی چھین چھیبلی کالی پیلی لال او رنیلی چمچماتی ہوئی راہ پر جاتی ہوئی۔مگر تمام راستے کو اپنے قبضہ میں کر کے یہ بڑی گاڑیاں جیسے جہاز ہو۔جتنی سڑک اتنی کار۔اتنا کہ اپنے پیچھے تمام ٹریفک کو ایک مقناطیس کی طرح چپکائے راستہ پر آہستہ رو جائے۔ساری ٹریفک کو ہائی جیک کئے قریب اپنے کسی گھر کی طرف رواں دواں اس کار نے پورے بازارکو ڈیڈ لاک لگا دیا ہو۔حتیٰ کہ شہزادے وہ چھلاوے یہ بائیک سوارجن کا بس چلے تو یہ کاروں کے اوپر فلائی کر کے سب سے اگلی گاڑی کے آگے آگے دوڑ کر دور کہیں رش میں یوں غائب ہو جائیں جیسے اس بازار میں آئے ہی نہ تھے۔وہ بائیک والے بھی بیزار اور اس موٹر کار کے پیچھے رینگنے ہوئے بچھوؤں کی طرح جیسے بارات لے کر جاتے ہوئے۔پھر ایسی بارات کہ جس میں دولھے کی نشاندہی کرنا ازحد دشوار ہو۔بس یہ کہ ان میں سے ہر ایک جیسے بارات کا گھڑ سوار ہو۔کوئی تو پھن پھیلائے ہوئے ہے اور کوئی کسی کو سموچا نگلنے کو تیار۔چنگ چی ہو یا رکشہ ہو یا سوزوکی گاڑی ہو ہر ایک ہر بازار میں گھس بیٹھے ہیں۔اوپر سے ڈنک اٹھائے ہو یہ موٹر سائیکل والے۔غرض یہ کہ اسی شہر کو پامال کیا جا رہاہے انھیں سڑکوں کو روندا جا رہاہے۔جہاں اگر پیدل بھی جانا چاہیں تو راہ نہ پائیں قدم اٹھائیں اور رک جائیں کڑھتے جلتے اندر اندر سلگتے مرتے جائیں مگر کسی کو فریاد کرنہ پائیں۔بہت رش کا عالم ہے۔اگر کہیں کسی وجہ سے جلوس ہو اور دھرنا دیئے بیٹھے شرکاء سڑک پر کسی کو آنے نہ دیں تو پھرتمام شہر کے راستوں پر اچانک رش بڑھ جاتا ہے۔کیونکہ پولیس کو ٹریفک کنٹرول کرنے کے لئے ایک طرفہ گاڑیوں کو دوسرے راستے پر ڈالنا ہوتا ہے اور دوسری راہ کی ٹریفک کو اگلے کسی اور موڑ کی طرف دھکیلنا ہوتا ہے۔یوں اس ایریا میں تمام ٹریفک کا نظام صرف ایک سڑک کی بندش سے بدحالی کا شکار ہو جاتاہے۔ایک موٹر کار صرف ایک موٹر کار تمام سڑک کو خجل کردیتی ہے اوربے کار بنا ڈالتی ہے۔اگر دھرنوں کے لئے کوئی ایک جگہ مخصوص ہو جائے تو کتنا اچھاہو۔ ہماری بات یہی رہتی ہے کہ جو وقت بیت گیا جو دن گزر گیا بس ٹھیک ہے۔اب کل دیکھیں گے۔اسی طرح تو ہر بازار میں ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔کیونکہ باہر دور کہیں احتجاج ہو رہا ہوتا ہے۔اس کااثر دور دور تک بازاروں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔گاڑیوں کے رش کو جب کہیں جگہ نہ ملی تو وہ کسی بڑی سڑک کا رخ کرتے ہوئے پھنس جاتے ہیں۔اس بڑی سڑک پر آگے سے ایک بڑی جہاز نما کار جاتی ہوئی ملتی ہے۔جس کے پیچھے تمام ٹریفک کی گاڑیوں کا جلوس روانہ ہوتا ہے۔ ہارن پہ ہارن بجائے جاتے ہیں۔ ہر یک کہتا ہے آگے سے ہٹو مجھے راستہ دو اسی کشمکش میں بھیڑ اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ ملحقہ گلیوں کے لوگ بھی اپنے گھر میں قید ہو جاتے ہیں۔پورے شہر کا یہی عالم ہے۔اب جمعہ اور اتوار کی بات نہیں رہی کہ ان دنوں چونکہ چھٹی ہوتی ہے۔پرائیویٹ لوگ جمعہ اور سرکاری لوگ اتوار کو ایک دن کے لئے فراغت حاصل کرتے ہیں۔اب تو چھٹی کا کوئی دن بھی ہو مگر ٹریفک کے اژدہام کو چھٹی نہیں ملتی۔”مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا۔اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا“۔ جب شہریوں کو راستوں کی کھوج ہو جاتی ہے اور راستے خوب یاد ہو جاتے ہیں کہ کون سی سڑک پر کس طرف موڑ کاٹ کے کس طرف نکلنا ہے تو سب اپنی اپنی راہ ڈھونڈنے کے لئے گلیوں کوچوں تک میں آ رہتے ہیں۔جہاں ایک موٹر کار بھی کافی ہے کہ وہ اس راستے کو مزید گنجلک کر دے۔جیسے گھرکی چھت پربچہ پتنگ اڑاتاہو اور اس کے پاؤں تلے اسی پتنگ کی ڈور دائرہ در دائرہ الجھ جائے اور وہ اس کو درست کرنے کو ایک نگاہ اگر اڑتی پتنگ پررکھے تو پاؤں سے وہ مانجھے کو سلجھانے کی کوشش بھی ساتھ ساتھ کرتا ہو۔