موسم نے قبل از وقت انگڑائی لی ہے اور اچانک رنگ بدلا ہے۔بروز ِ جمعرات اسوج کی کٹیلی دھوپ وہیں کی وہیں تڑپتی تڑپاتی رہ گئی اور اچانک سردی نے زبردستی اوور کم کر لیا۔حالانکہ سردی کا یہ قبضہ پندرہ اکتوبرکو ہوتا ہے۔دن بھر ٹھنڈک رہی اور اس کے بعد اب تک ٹھنڈا ٹھار موسم ہے۔ کہیں گلوبل وارمنگ بے وقت کی راگنی الاپ دیتی ہے اور تپش کا عالم از سرِ نو شروع ہوجاتا ہے۔مگریہ سختی سب کچھ عارضی ہے۔جلد ہی موسم بدل جائے گا۔پھر سردی ہوگی اور ہم ہوں گے۔ پھر سرما کے وار تو اس بار زیادہ کٹیلے کہے جا رہے ہیں۔ اگرچہ کہ موسمیات والوں کا ایس ایم ایس آیا کہ دھوپ ہوگی تو دو ایک روز قبل اُسی دن بارش ہوئی۔یہ تو خیر الگ مسئلے ہیں کہ قدرت کے رازکوئی جان نہیں پاتا گلوبل وارمنگ کے جو مرتکب ہوئے وہ بیرونی ممالک ہیں جن کے قصور میں ہمارا جو حصہ ہے وہ نصف صدی کا قصہ ہے کہ ہم ایک فی صد قصوروار ہیں۔جرم کسی او رنے کیا او راس کی سزا ہم نے پائی اور خوب پائی کہ دو ماہ ہوگئے سیلاب کا پانی سندھ کی سرزمین میں جو آن داخل ہوا ہے وہ نکالے نہیں نکل رہا۔اے سی وغیرہ تو خیر بند ہو گئے ہیں اگر کسی کو بہت گرمی نے ستا رکھا ہو تو وہ اے سی لگاتا ہوگا وگرنہ تو موسم نے جو پینترا بدلاہے اس کے کارن اب تو اے سی وغیرہ بند کردیئے گئے ہیں۔ہاں جس بلڈنگ میں تیسری چوتھی چھت یا اس سے اوپر گرمی زیادہ ہوتی ہے اگر وہاں اے سی لگے ہوں تو میں نہیں کہہ سکتا۔ روشندانوں سے آنے والی ہواجو کاغذ شیٹ لگا کر بند کردی گئی تھی۔ وہاں رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں کہ تازہ ہوا کا دخل زیادہ ہو اورکمرے کا درجہ حرارت برابر رہے۔مگر عنقریب جب سردی زیادہ ہونے لگی گی تو انھیں روشندانوں پردوبارہ سے رنگین کاغد یا پلاسٹک شیٹ لگا دی جائیں گی تاکہ یہ ہوا اندرآنے نہ پائے اور کمرہ میں حبس پیدا ہو جائے اور زیادہ سردی کا احساس نہ ہو۔مگر ہیں ایسے بھی کملے کہ برفانی علاقوں میں جانے کی تیاری ابھی سے کر رہے ہیں اور دو کے چار اور چار کے آٹھ روپے کرنے کے چکر میں ہیں تاکہ برفباری دیکھنے کو جا سکیں۔گھر کے جو کمرے گرمی کے کارن ویران پڑے تھے دوبارہ سے آباد ہونے لگے ہیں۔ان کمروں میں گھروالوں کی آوت جاوت شروع ہو گئی ہے اوربیٹھنے اٹھنے کی سیٹنگ وہاں بھی جاری ہے۔ بلکہ کمبل تو بیس دن پہلے سے نکل آئے تھے او رپنکھے تلے چادر تان کر سونے کا بھی یہی تو موسم ہے۔گاہے گرمی کا احساس اور گاہے سردی کا خیال۔سو اس مکسنگ میں کمبل لے کر پنکھے تلے سونا زیادہ اچھالگتا ہے۔مگر رات گئے اگر آنکھ کھل جائے تو پنکھوں کے سوئچ آف کرنا پڑتے ہیں۔سردی میں آدمی کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیتا ہے۔مگر گرمی میں تو کہیں کسی کونے کھدرے میں گھس جاؤ وہاں بھی قرار نہیں آئے گا۔ جب گرمی چلی جاتی ہے تو بعض افراد سردی کی تعریف کرتے ہوئے یہ جملہ ضرور دہراتے ہیں کہ یا ر گر می کا اپنا مزاہے۔مگر یہی وہ لوگ ہیں جو گرمی کے شدید ہوجانے کے عالم میں اُف اُف کرتے پھرتے تھے۔اسی لئے کہتے ہیں کہ پہاڑ دور سے اچھا لگتا ہے۔اسی لئے ابھی سے برف باری میں روئی کے گالوں کے نیچے کھڑے رہ کر لطف اٹھانے والے پہاڑوں کی سمت دیکھ رہے ہیں کہ کب چھٹی کا پرچہ داخل کریں اور دفترسے بیماری کی رخصت لے کر دور دیس میں پہاڑوں کی سرزمین کا رخ کریں۔بعض کو گرمی میں اور بعض کو سردی میں کاغان ناران مری سوات اور کالام وغیرہ جانے کا مزا آتا ہے۔ویسے سردی کی کچی دھوپ سے بھی بندہ اکتا جاتا ہے کہ گرم کیوں نہیں ہے۔سردی میں سورج سر کے اوپر نہیں ہوتا دوپہر بارہ بجے کے وقت سورج کا دائرہ جنوب کی جانب سامنے ہوتا ہے۔سورج کی گزرگاہ کا دائرہ سر کے اوپر نہ ہونے کی وجہ سے محدود ہوجاتاہے اور دن شارٹ ہو جاتا ہے۔ویسے میں کہوں خوشحالی ہو تو گرمی بھی مزہ دیتی ہے ٹینشن نہ ہوتو گرما کے سورج کی تمازت بھی دل کو اچھی لگتی ہے۔لیکن ٹینشن کا شکار ہوں تو سردی کی دھوپ بھی اوپر سے جسم و جاں میں سوئیاں چبھوتی ہے۔ سردی میں خشک میوہ جات کا چلن عام ہوجاتا ہے ویسے اگر اپنے ہاتھ سے مونگ پھلی چھیل کر اور مالٹے کاٹ کر کھائیں تو یہ لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔لیکن دوسری طرف جو بات دل کو کھائے جارہی ہے وہ یہ ہے کہ مالٹے کیسے کھائیں گے۔مونگ پھلیا ں دانتوں تلے کیسے دبائیں گے۔یہ نہیں کہ دانت نہیں۔دانتوں کے معاملے میں تو ہم خودکفیل ہیں دو ایک اگر ٹوٹے ہوں تو کیا ہوا باقی تو ہیں۔پھر ان بچے کچھے دانتوں سے یہ خشک میوہ جات خواہ گراں ہو یا ارزاں چپاہی لئے جائیں گے۔ مگر مونگ پھلی جیسی جنسِ گراں مایہ خریدنے کوپیسے کہاں سے آئیں گے۔کیونکہ آج جس چیزکا جو نرخ ہے وہ کل بدل جاتا ہے۔