زبان سے لگائے گئے گھاؤ جلدی نہیں بھرتے 

آج کل ہمارے  ہاں اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں ریمارکس پاس کرتے وقت احتیاط کا دامن چھوڑ دیا جاتا ہے اور جن میں ان کے مخالفین کی تضحیک کا پہلو نمایاں ہوتاہے۔ اس قسم کی لاپرواہی سیاسی  جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی اور تعلقات  کیلئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ جبکہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اہم درپیش مسائل کے حوالے سے ہم آہنگی ہو۔  انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب اور ٹوئٹر اور سوشل میڈیا کی آسانی سے  دستیابی  جہاں بہت سے فوائد سامنے آئے ہیں اور ایک دوسرے سے روابط اور اظہار خیال میں آسانی فراہم ہوگئی ہے وہاں اس کے غیر محتاط استعمال سے مسائل بھی پیدا ہونے لگے ہیں۔ بزرگوں نے درست ہی کہا ہے کہ تلوار سے لگا زخم جلد بھر جاتا ہے پر زبان سے لگایا گیا گھاؤو جلدی نہیں بھرتا یہی وجہ ہے کہ عقلمندسیاسی لیڈر تقریر کرتے وقت نہایت نپے  تلے الفاظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ زبان کی ذرا سی لغزش سے ان کیلئے کئی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ضروری ہے کہ پبلک کے کسی بھی فورم سے کسی بھی موضوع پر جو بھی تقریر کی جائے وہ پہلے سے تحریر شدہ ہو یہی وجہ ہے کہ اکثر زعماء نے اپنے لئے سپیچ رائٹرز speech writers  تعینات کئے ہوتے ہیں جو ان کے واسطے ہر موضوع پر تقریر لکھتے وقت اس پر ریسرچ کرتے ہیں اگر وقت کا تقاضہ یہ ہو کہ کسی لیڈر کو برجستہ تبصرہ کرنا ضروری ہو تو مقرر کیلئے الفاظ کے چناؤ میں احتیاط لازمی ہے۔ انگلستان کو پارلیمانی جمہوریت کی ماں کہا گیا ہے۔ انگلستان کے ہاؤس آف کامنز اورہاؤس  آف لارڈز کے اراکین کے طرز عمل   کو دیکھا جائے تو وہ ایک دوسرے پر اگر تنقید بھی کریں تو نہایت شستہ زبان میں کرتے ہیں اور اخلاق یا تہذیب کا دامن اپنے ہاتھ سے بالکل جانے نہیں 
 دیتے۔ اب آتے ہیں ایک اور مسئلے کی طرف جس کا ہر سردی میں ہمیں سامنا ہوتا ہے۔ہر سال پاکستان میں موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی ملک کے بالائی اور وسطی حصے شدید دھند کی لپیٹ میں آجاتے ہیں، مگر یہ مسئلہ ہر گزرتے سال کے ساتھ سنگین ہوتا جارہا ہے۔سموگ کے سبب لاہور کو متعدد بار دنیا کا سب سے آلودہ شہر قرار دیا جا چکا ہے۔گزشتہ سال یہ صورتحال اس قدر شدت اختیار کر گئی تھی کہ لاہور ہائی کورٹ نے شہر میں سموگ کے باعث حکومت کو ہدایت کی تھی کہ نجی دفاتر کے لیے کورونا وبا کی طرز پر 50 فیصد ملازمین کی حاضری کے ساتھ کام کا نوٹی فکیشن جاری کردیا جائے۔اس سال بھیپنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے سموگ کو آفت قرار دیتے ہوئے صوبے میں سموگ کا سبب بننے والی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔سموگ کے تدارک کا نوٹیفکیشن لاہور ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا جس کے تحت صوبے بھر میں سموگ کی وجہ بننے والی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔نوٹیفیکیشن کے مطابق سموگ کو کنٹرول کرنے کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جائیں گی، پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی میں کرائسس
 روم قائم کیا جائے گا۔نوٹیفکیشن میں واضح کیا گیا کہ آلودگی کے تدارک کے بغیر کام کرنے والی صنعتوں پر پابندی ہو گی۔نوٹیفکیشن کے مطابق فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی عائد ہو گی اور خلاف ورزی کرنے والوں پر 50 ہزار روپے جرمانہ عائد ہو گا۔نوٹیفیکیشن میں ہدایت دی گئی کہ ڈپٹی کمشنرز سموگ کو کنٹرول کرنے کے لئے تمام ضروری اقدامات کریں گے، آلودگی کا باعث بننے والی گاڑیوں اور صنعتوں کے خلاف سخت کاروائی ہوگی۔نوٹیفیکیشن میں مزید بتایا گیا کہ غیر معیاری ایندھن کی فروخت پر پابندی ہو گی، ٹریفک کی روانی کو یقینی بنایا جائے گا۔نوٹیفیکیشن میں ہدایت دی گئی کہ تجاوزات ختم کی جائیں اور غلط پارکنگ نہ کی جائے تاکہ ٹریفک کی روانی برقرار رہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق سموگ ایڈوائزری متعلقہ محکموں کے ذریعے جاری کی جائے گی۔واضح رہے کہ سموگ دراصل دھوئیں اور دھند کا امتزاج ہے جس سے عموما زیادہ گنجان آباد صنعتی علاقوں میں واسطہ پڑتا ہے، لفظ سموگ انگریزی الفاظ سموک اور فوگ سے مل کر بنا ہے۔اس طرح کی فضائی آلودگی نائٹروجن آکسائڈ، سلفر آکسائیڈ، اوزون، دھواں یا کم دکھائی دینے والی آلودگی مثلا کاربن مونوآکسائڈ، کلورو فلورو کاربن وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق سموگ بننے کی بڑی وجہ پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں سے گیسز کا اخراج، صنعتی پلانٹس اور سرگرمیاں، فصلیں جلانا یا انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی حرارت ہے۔سموگ کی معمولی مقدار میں گھومنا بھی دمہ کے مریضوں کے لئے دورے کا خطرہ بڑھانے کے لئے کافی ثابت ہوتی ہے، اس سے بوڑھے، بچے اور نظام تنفس کے مسائل کے شکار افراد بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔