موسمیاتی تبدیلیوں کے سلسلے دراز ہیں۔ حالیہ سیلاب تباہ کن تھا لیکن اِس سیلاب کے بعد جو کچھ ہو سکتا ہے وہ سیلاب سے بھی زیادہ بدتر ہو سکتا ہے۔ سیلاب متاثرین جس اذیت سے گزر رہے ہیں اگر یہ جاری رہتی ہے اور بین الاقوامی برادری پاکستان کی مدد کرنے کی درخواستوں پر خاطرخواہ توجہ نہیں دیتی تو اِس سے صورتحال ازخود بہتر نہیں ہوگی۔ اِس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے چند حالیہ رپورٹس جن میں حقائق کو دستاویز کیا گیا ہے پاکستان کو درپیش سیلاب سے زیادہ زیادہ بڑے چیلنج کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے پاکستان کی عالمی امداد کے حوالے سے اپیل اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے نظرثانی شدہ تخمینہ جات کے مطابق پاکستان کو 81 کروڑ 60 لاکھ (816ملین) ڈالر کی امداد چاہئے۔ مذکورہ دستاویز میں سیلاب سے متاثریں کی کی کل تعداد تین کروڑ تیس لاکھ (تینتیس ملین) بتائی گئی ہے‘ جس میں 79 لاکھ (7.9ملین) لوگ گھر ہو چکے ہیں جو کم و بیش چھ لاکھ ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ پاپولیشن کونسل کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں سیلاب متاثرین کے خطرات کے بارے میں اعدادوشمار جاری کئے گئے ہیں۔ جن کے نتائج کے مطابق متاثرہ آبادی میں، اکیاون لاکھ (پانچ اعشاریہ ایک ملین) پانچ سال سے کم عمر کے بچے بھی شامل ہیں جنہیں حفاظتی ٹیکوں‘ غذائیت اور دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔سیلاب سے 9 لاکھ 40ہزار بزرگ شہری بھی متاثر ہیں جن کی اپنی الگ سے خصوصی ضروریات ہیں اور چھ لاکھ دس ہزار حاملہ خواتین متاثرین ہیں جنہیں قبل از پیدائش‘ زچہ و بچہ خدمات کی ضرورت ہے۔ حالیہ سیلاب سے زیادہ تباہی سندھ میں ہوئی ہے جہاں کم و بیش تیس لاکھ بچوں کو‘ جن کی عمریں پانچ سال یا اِس سے کم ہیں کو امداد کی ضرورت ہے۔ سیلاب متاثرین میں پینسٹھ سال سے زائد عمر کے 5 لاکھ 39 ہزارسے زیادہ اور 3 لاکھ80 ہزار سے زیادہ حاملہ خواتین ہیں۔ خوش آئند ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ قرارداد (سات اکتوبر) میں عطیہ دینے والے ممالک اور اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان میں سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں کی مکمل حمایت کریں۔ پاکستان جس درجے کی قدرتی آفت کا سامنا کر رہا ہے کم از کم دنیا نے اُس کی حقیقت اور گہرائی کو تسلیم کیا ہے اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اِس قدر بڑے سانحے سے پاکستان اپنے وسائل سے تن تنہا نہیں نمٹ سکتا بلکہ اِسے عالمی امداد چاہئے۔ پاکستان جو کہ ماحول دشمن (گرین ہاؤس) گیسوں کے اخراج کے لئے ایک فیصد سے بھی کم حصہ داری رکھتا ہے لیکن اِسے موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت اِنتہائی بدترین حالات اور زیادہ بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ دنیا پاکستان کی خاطرخواہ (دل کھول کر) امداد بھی نہیں کر رہی تو ضروری ہے کہ اِس مرتبہ موسم سرما اور آنے والی مون سون بارشوں کے شدید اثرات سے بچنے کے لئے منصوبہ بندی کی جائے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے مظاہر (آفات) سے نمٹنے میں موسمیاتی ماہرین کی پیشگوئیاں خاص اہمیت کی حامل ہوتی ہیں لیکن قومی و صوبائی فیصلہ سازی میں انہیں خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جاتی جو دوراندیشی کے فقدان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ماحول دشمن اقدامات میں قدرتی طور پر نکاسیئ آب کے راستوں پر تجاوزات غیر معقول اور غیر قانونی ہیں جن پر آنکھیں بند رکھنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ اِس کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آبادی میں اضافے کی شرح کم کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے اور قومی ترقیاتی حکمت عملی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے لئے زیادہ مالی مختص کرنا بھی ضروری ہے۔ مون سون بارشوں اور حالیہ سیلاب کے دوران صحت کے نظام میں موجود خامیاں ظاہر ہوئی ہیں جبکہ مستقبل کے خطرات و خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے علاج معالجے کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آب و ہوا کے خطرات سے نمٹنے کے لئے مقامی حکومتوں اور مقامی انتظامیہ کو بااختیار بنایا جانا چاہئے جنہیں یہ صلاحیت حاصل ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے حالات سے مقامی معلومات کی بنیاد پر نمٹنے کا تجربہ اور تجربات سے اخذ شدہ معلومات رکھتے ہیں۔ ماحولیاتی تناؤ بھرے مزاج سے راستہ تلاش کرنا اور ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق پالیسی سازی وقت کی ضرورت ہے‘ جس پر مستقبل کا بھی انحصار ہے۔