دنیا انتشار کا شکار 

حکومت اپنی سطح پر کوشش تو بہت کر رہی ہے کہ سردیوں کیلئے سستی گیس کی درآمد کا بندوبست ہو جائے پرہنوز اس ضمن میں اسے خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے سردیوں میں گیس کے بلوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تھر کول کے استعمال کی بات تو کی جا رہی ہے پر کیا اس سے فضا میں مزید آلودگی نہیں بڑھے گی اور اس ملک پر عالمی پریشر نہیں پڑے گا کہ کوئلے کااستعمال کم کیا جائے کہ یہ بھی موسمیاتی تبدیلی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ خدا لگتی یہ ہے کہ توانائی کے مسئلہ کا حل یا تو سولر انرجی میں ہے اور یا پھر پانی سے بجلی پیدا کرنے میں اس جملہ معترضہ کے بعد ذکر کرتے ہیں۔عالمی منظر نامے کا جہاں بہت سے معاملات میں امریکہ کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی ہے اور وہ کسی نہ کسی بہانے اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے عالمی امن کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ امریکہ نے ہی یوکرین کو روس کے خلاف ورغلایا اور اب یہ حال ہے کہ روس نے یوکرین کے ایک وسیع علاقے پر قبضہ کرکے اسے روس میں ضم کرنے کا اعلان کیا۔

 امریکہ یوکر ین کی جو ہلہ شیری کر رہا اس سے یورپ کے حالات بھی خراب ہو رہے ہیں۔ اسی طرح امریکہ نے ہی ایران کے اندر بھی ایک شورش پیدا کر دی ہے وہ ہر صورت روس اور چین کے درمیان خلش پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ان ممالک کے اندرونی حالات خراب کر رہا ہے جو چین کے ساتھ معاشی منصوبوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ عالمی منظر نامے پر تازہ ترین پیش رفتسعودی عرب اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری ہے۔گزشتہ ایک ماہ کے دوران سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان فاصلے بڑھے ہیں جبکہ دوسری جانب جنگ میں آمنے سامنے روس اور یوکرین کی حکومتوں نے مختلف مواقع پر سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب روس اور یوکرین آپس میں دست و گریباں ہیں جبکہ مغربی دنیا روس کے خلاف ہے، سعودی عرب کی روس اور یوکرین سے قربت اور امریکہ سے دوری کا کیا مطلب ہے؟ امریکی صدر جو بائیڈن نے تین ماہ قبل جولائی میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور اس دورے کا بنیادی مقصد سعودی عرب کو تیل کی پیداوار بڑھانے پر آمادہ کرنا تھا۔

بائیڈن نے سعودی عرب سے پیداوار بڑھانے کو کہا تھا لیکن سعودی قیادت میں چلنے والی تنظیم اوپیک کے حالیہ فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائیڈن کے دورے کا سعودی عرب پر کوئی اثر نہیں ہوا۔سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے سینئر فیلو بیل کاہل کے مطابق سعودی عرب ایسا کر کے تیل کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ملک کساد بازاری کا شکار نہ ہو۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اوپیک پلس کی پیداوار مارکیٹ کے حالات سے منسلک ہے، اس لیے جب وہ محسوس کریں گے کہ طلب کم ہے تو وہ اپنی پیداوار کم کر دیں گے۔ وہ نہیں چاہتے کہ پیداوار زیادہ ہو اور اس کی وجہ سے قیمتوں میں کمی واقع ہوئی۔سعودی عرب اور اوپیک پلس ممالک نے پیشگوئی کی ہے کہ عالمی معیشت کساد بازاری کی طرف بڑھ رہی ہے اور تیل کی طلب کم ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف امریکہ پیداوار میں اضافہ جاری رکھنا چاہتا ہے، اس سے قیمتیں کم ہو جائیں گی۔

 امریکہ میں نومبر میں وسط مدتی انتخابات ہونے والے ہیں، صدر بائیڈن کا خیال ہے کہ اگر قیمتیں بڑھیں تو انتخابات میں ان کے لیے مشکل ہو سکتی ہے۔ان حالات میں امریکہ کی طرف سے مسلسل کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کا جھکا روس کی طرف بڑھ گیا ہے اوروائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کارائن جین پیئر نے حالیہ بیان میں کہا کہ یہ واضح ہے کہ اوپیک پلس روس کے ساتھ ہے۔روس نے بھی اوپیک پلس کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔لیکن سعودی وزیر عادل الزبیر نے ایک بیان میں کہا کہ سعودی عرب تیل یا تیل کے فیصلوں پر سیاست نہیں کرتا۔ دیکھا جائے تو عالمی منظر نامے پر سعودی عرب ایک واضح طاقت بن گیا ہے۔ اس میں اب پہلے جیسی گھبراہٹ نہیں رہی۔ خارجہ پالیسیوں پر اس کا موقف اب اعتماد سے بھرپور ہے۔ اس نے اب ایران اور ترکی کے ساتھ بھی بات چیت شروع کر دی ہے۔ جولائی میں جب بائیڈن نے دورہ کیا تو انھوں نے سوچا کہ حالات ویسے ہی ہوں گے جیسے وہ چاہتے ہیں، یہ غلط رویہ تھا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے فیصلے اس کی مالی طاقت کی علامت ہیں۔