آزمائش کی گھڑی

حالیہ سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال ایک ایسی ’آزمائش کی گھڑی‘ میں تبدیل ہو گئی ہے جس کے جلد حل ہونے کی تدابیر کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔ اگلے چند ماہ ملک کے سیلاب زدگان کیلئے جاری آزمائش کی شدت میں اضافہ بین الاقوامی سست (ناکافی) ردعمل کی وجہ سے ہے اگرچہ بین الاقوامی سطح پر سیلاب متاثرین کی امدادوبحالی کیلئے عطیات سے متعلق کچھ اعلانات سننے میں آئے ہیں اور قومی سطح پر بھی افراد اور تنظیمیں امداد پہنچانے کی کوششوں (کارخیر) میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن یہ سب کافی نہیں ہے کیونکہ زمینی حقائق ایک دلخراش تصویر پیش کر رہے ہیں جو سیلاب سے ہوئی وسیع پیمانے پر ہوئی تباہی و بربادی کا منظرنامہ ہے۔ ہنگامی حالات میں مدد کرنے والے قومی ادارے جیسا کہ ’ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز‘ اور دیگر متعلقہ اداروں نے سیلاب زدہ علاقوں میں ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے جو حکمت عملی تیار کی ہے اسے مزید موثر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ ملک کو جن انواع و اقسام کے چیلنجز کا سامنا ہے ان کی تعداد زیادہ ہے جبکہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو ان مسائل سے نمٹنے کیلئے زیادہ مربوط کوششیں کرنی چاہیئں اصولاً اِس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہمیشہ سوچے سمجھے منصوبے کی ضرورت ہوتی ہے۔

 اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے منصوبے کیلئے 80کروڑ (آٹھ سو ملین) ڈالر سے زیادہ کی فوری امداد چاہئے تاکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں قریب ایک کروڑ (دس ملین) بے سہارا اَفراد کو اپنی معیشت و معاشرت پھر سے بحال و آباد کرنے کیلئے سہارا دیا جا سکے‘ سیلاب متاثرین کے لئے عالمی امداد کی اپیل کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے اِسے ’زندگی بچانے والی انسانی امداد‘ کا نام دیا ہے جو ایک حقیقت بھی ہے کہ تین کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ سیلاب زدگان حالات اور موسموں کے رحم و کرم پر ہیں‘ المیہ ہے کہ 80لاکھ لوگ اپنے گھروں سے محروم ہیں اور ایسے خوشحال گھرانے جو کبھی دوسروں کی مدد کرتے تھے لیکن آج بے یارومددگار امداد کے منتظر ہیں اور اندرون ملک بے گھر افراد (انٹرنلی ڈسپلیسڈ پرسنز آئی ڈی پیز) کے طور پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پندرہ لاکھ  سے زیادہ لوگ حکومت کی جانب سے بنائی گئی خیمہ بستیوں میں رہ رہے ہیں کیونکہ وہاں کم سے کم سر چھپانے کے لئے خیمے یا عارضی پناہ گاہیں تو موجود ہیں۔ اِس صورتحال میں سیلاب متاثرین کو لاحق خطرات میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے بالخصوص پانچ سال یا اِس سے کم عمر کے پچاس لاکھ ایسے بچے ہیں جنہیں عمر کے لحاظ سے حفاظتی ٹیکوں کی ضرورت ہے۔ 

پانچ لاکھ (نصف ملین) سے زیادہ حاملہ خواتین کو طبی معائنے اور دیکھ بھال کی ضروت ہے جبکہ صحت کی دیکھ بھال کا نظام سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے مفلوج ہو چکا ہے اور زیادہ تر زچہ و بچہ کیسز میں نومولود اور ماں کی زندگیوں کو یکساں طور پر سنگین خطرات لاحق ہیں۔ بے بسی و لاچارگی کے اِس پورے منظر نامے میں‘ عطیہ دینے والے اداروں اور پاکستان کے دوست ممالک پر لازم ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جانب سے اپیلوں کا مثبت جواب دیں تاکہ اقوام متحدہ کی زیرنگرانی امداد اور بحالی کی سرگرمیوں کی رفتار اور مقدار بڑھائی جا سکے۔ توجہ طلب ہے کہ تعمیر نو کی جملہ کوششوں کو تیزی سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے چونکہ بعد از سیلاب کے اثرات یکساں تباہ کن ہیں اِس لئے سیلاب والے علاقوں میں نئی تعمیرات کیلئے بلڈنگ کوڈز بھی الگ سے وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے ممکنہ خطرات سے آبادیوں کے مراکز محفوظ رہیں۔ لمحہئ فکریہ اور ضرورت ہے کہ مستقبل قریب و بعید میں کسی بھی ایسی تباہی کا باعث بننے والی کمزوریوں کو کم کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیاں ایک حقیقت کی صورت ظہورپذیر ہو چکی ہیں اور اِن کے اثرات میں شدت یعنی تیزی سے بگڑتے موسمی حالات رد نہیں کئے جا سکتے۔

 غلط ترجیحات اور غلط تصورات سے شروع کئے جانے والے منصوبوں سے گریز کرنا چاہئے جن کیلئے بیرونی امداد استعمال کی جا رہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ سیلاب متاثرین کی مدد ہو سکے اور یہ مدد پائیدار بھی ہو۔ پاکستان میں آبادی بڑھنے کی رفتار بھی زیادہ ہے اور جلد ہی ملک کی آبادی 24 کروڑ (دوسوچالیس ملین) کو چھو لے گی! ایک ایسی صورتحال جبکہ وسائل محدود اور قومی شرح نمو (جی ڈی پی) کی شرح نمو کم ہو رہی ہے‘ مہنگائی و بیروزگاری عروج پر ہے۔ پاکستان کے وسائل کی بنیاد سکڑتی جا رہی ہے جبکہ تعلیم و صحت کی سہولیات کا معیار مختلف وجوہات کی بنا پر مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ بیماریاں چاروں طرف منڈلا رہی ہیں جبکہ تعلیم کا شعبہ اپنی جگہ کم مالی وسائل کی وجہ سے خاطرخواہ نتائج نہیں دے رہا۔ اِس پورے منظرنامے اور صورتحال کا تقاضا ہے کہ حسب حال بہتر و معیاری ترقیاتی منصوبہ بندی کی جائے‘ جس میں وسائل کی بچت کے ساتھ پائیداری اور سخت مزاج موسمیاتی اثرات سے حفاظت کا خاطرخواہ بندوبست ہونا چاہئے۔